علی احمدی
افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کیلئے امریکہ کی خصوصی ایلچی
رینا امیری نے حال ہی میں سعودی اخبار "عکاظ" سے ایک انٹرویو کے دوران
افغانستان میں خواتین کی صورتحال اور خطے میں سعودی عرب کے کردار سے متعلق امریکی
موقف کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے کہا: "مسلم اکثریت والے ممالک کو چاہئے کہ وہ
افغانستان میں رونما ہونے والے بڑے المیے کے بارے میں آواز اٹھائیں۔" رینا
امیری نے افغانستان میں خواتین کی حالت انتہائی افسوسناک قرار دی اور کہا کہ سعودی
عرب، جسے اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہے، طالبان کے مقابلے میں ترقی یافتہ اور
روشن خیال نظریات پیش کر سکتا ہے۔ انہوں نے اسلامی ممالک خاص طور پر سعودی عرب سے
مطالبہ کیا کہ وہ مسلمان ممالک کے درمیان موجود سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو بروئے
کار لاتے ہوئے افغانستان میں خواتین کی بھرپور حمایت کریں۔
افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کیلئے امریکہ کی خصوصی ایلچی کا
مزید کہنا تھا: "خلیج تعاون کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم جیسے ادارے افغان
شہریوں میں یہ احساس پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور اسلامی دنیا میں ان
کے بھائی اور بہنیں ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے
حقوق کا دفاع کریں گے۔" رینا امیری کے اس انٹرویو کا اہم ترین نکتہ سعودی عرب
کیلئے اس نئے کردار کی وضاحت ہے جو انہوں نے ایک امریکی حکومتی عہدیدار ہونے کے
ناطے بیان کی ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو ایسے ملک کے طور پر پیش کیا ہے جسے عالم
اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ درحقیقت امریکی ایلچی نے اپنے اس بیان کے ذریعے
اس ملک کو خطے میں نیا کردار پیش کرنے کی کوشش کی ہے جسے سابق امریکی صدر نے
"دودھ دینے والی گائے" قرار دیا تھا۔
رینا امیری نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام
حاصل ہے لیکن جب ہم موجودہ زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان کی
اس بات میں کوئی حقیقت نہیں پائی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب دونوں
حتی اس قابل بھی نہیں کہ وہ انسانی حقوق یا اسلامی تعلیمات کے بارے میں اظہار خیال
کریں۔ امریکی اور سعودی حکمرانوں کا نامہ اعمال اس قدر انسانیت کے خلاف جرائم سے
بھرا پڑا ہے کہ ان کے منہ سے ایسی باتیں سن کر ہنسی آتی ہے۔ خاص طور پر افغانستان
میں اور اس ملک کے شہریوں کے خلاف انجام پانے والے امریکی جرائم کسی کی نگاہ سے
ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود رینا امیری کے دوست بارہا اقوام
متحدہ کی انسانی حقوق کی کاونسل میں سعودی حکمرانوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی
کے الزامات عائد کر چکے ہیں۔
2006ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے طور پر انسانی حقوق کی کاونسل
تشکیل پانے کے بعد ہر چار سال میں ایک بار اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں انسانی
حقوق کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس منصوبے کے تحت
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال کا 2009ء اور 2013ء میں دو بار جائزہ لیا جا
چکا ہے۔ اس جائزے میں مختلف قسم کے موضوعات کے بارے میں تحقیق انجام پاتی ہے اور
انسانی حقوق کے تقریباً تمام شعبوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک اہم شعبہ
خواتین کے حقوق کا ہے۔ انسانی حقوق کی کاونسل کے جائزوں میں سعودی عرب میں خواتین
کے حقوق کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج رینا
امیری سعودی عرب کو افغانستان میں خواتین کے حقوق کا علمبردار بننے کی دعوت دینے میں
مصروف ہے۔
رینا امیری اچھی طرح جانتی ہے اور یقیناً توجہ نہیں کرنا چاہتی کہ
سعودی عرب وہ ملک تھا جس نے اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں "وہابیت" اور
"تکفیریت" جیسے نجس افکار پھیلائے جن کی روشنی میں نہ صرف اہل تشیع بلکہ
اپنے علاوہ تمام اسلامی فرقوں کے پیروکاروں کو کافر قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کی
ایک واضح مثال سعودی عرب کے معروف مذہبی رہنما محمد العریفی، جو وزارت مذہبی امور
کی جانب سے ریاض مسجد کے امام جماعت بھی تھے، کا وہ فتوی ہے جو انہوں نے یکم جنوری
2010ء کے دن نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے دیا۔ انہوں نے سعودی عرب سمیت پوری
اسلامی دنیا سے اہل تشیع کو ختم کر دینے کا فتوی دیا۔ انہوں نے اعلانیہ طور پر کہا
کہ اہل تشیع حقیقی مومن نہیں ہیں اور ان کے نظریات کفر پر مبنی ہیں۔ سعودی
حکمرانوں کی جانب سے اس فرقہ وارانہ بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
دوسری طرف سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا گستاخانہ بیان تھا جس
میں اس نے واضح طور پر کہا کہ وہ جنگ اور بدامنی ایران کے اندر تک لے جانا چاہتا
ہے۔ سعودی حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات
استوار کرنے کی کوشش اور یمن کے خلاف ظالمانہ جنگ کا آغاز اس بات کا واضح ثبوت ہے
کہ سعودی عرب خطے میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جس کی امریکہ کوشش کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن اپنے سیاسی اہداف کے حصول کی خاطر اسلامی دنیا میں
"دودھ دینے والی گائے" کو ایک نیا کردار سونپنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت
سے غافل ہے کہ گذشتہ ایک عشرے کے دوران اسلامی معاشروں میں رونما ہونے والے واقعات
کی بدولت آل سعود رژیم کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment