توقیر کھرل
Wednesday 31-8-2022
اہلِ عراق کی بے مثال خدمت
ایک موکب پر عراقی نوجوان بلند آواز سے مسافروں کا استقبال کر رہے تھے:
اے زائرو خوش آمدید!
اے خوش نصبیوں خوش آمدید!
میری نظر ایک بینر پر پڑی، جس پر صاحبِ موکب کے بزرگوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ اس پر درج تھا "خادمین ِزوارِ حسینؑ۔" اہلِ عراق زائرین کے خدام ہونے پر فخر کرتے ہیں، اپنے نام کے ساتھ خادم ِزوار لکھتے ہیں، جیسے ہم حج و زیارت کی ادائیگی کی بعد لکھتے ہیں زوار، حاجی۔۔۔۔ عراقی بہت کریم ہیں، کیوں نہ ہوں، وہ کریم ِکربلا کے زائرین کے خدام ہیں۔ تاریخ میں کسی تحریک میں اس قدر شفقت اور کریمانہ خدمت کی مثال تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ نجف سے کربلا پیدل زیارت کرنے والوں کیلئے عراقیوں کی خدمت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ایسی محبت کہ جس کا نظارہ کہیں اور نظر نہیں آتا، ایسی چاہت کہ دل جس کا معترف ہو جائے، ایسی اپنائیت کہ اجنبیت کا احساس مٹ جائے، ایسا ماحول کہ جس میں آپ ایک بار جا کر ہمیشہ کیلئے کھو جائیں، ایسا منظر کہ جس کا نظارہ آپ کی آنکھوں میں گھر کر لے، ایسا سفر کہ آپ کو جنت کا احساس ہو۔
عراقیوں کی خدمت کی اور کیا مثال دوں، ایک عراقی نے بتایا کہ "سال بھر ماہِ صفر کا انتظار کرتے ہیں، کب ماہِ اربعین کا آغاز ہو، کب دنیا بھر سے امام ؑ کے عُشاق آئیں، تاکہ ہم ان کی خدمت کرسکیں۔ ہم ان کی خدمت کیلئے ہر وہ چیز لے آتے ہیں، جو ہمارے پاس ہوتی ہے۔" سارا سال انتظار کرتے ہیں، تاکہ بے مثال خدمت کریں، لیکن کریمِ کربلا کی کرامت سے ہمارا رزق کم نہیں ہوتا، مزید بڑھ جاتا ہے۔ ہم تو دعا کرتے ہیں، ہمارا نقصان ہی ہو جائے، ہم زائرین کی خدمت کرتے ہوئے امام سے کچھ مانگتے تو نہیں، مگر ہمارے رزق میں برکت اور فراوانی ہو جاتی ہے، جو ہمارے کسی اور عمل سے نہیں ہوتی۔" اہلِ عراق کی بیشتر تعداد مالدار نہیں ہے، لیکن زائرین کی بے مثال خدمت کرتے ہیں۔ کسی کے پاس اگر شامی انڈہ بنانے کی سکت ہے یا شوارما بنانے کی، چائے کا سٹال لگانے کی استطاعت ہے تو خلوصِ دِل سے اہتمام کرتا ہے۔
مہمان نوازی کے مناظر نجف سے کربلا دیکھنے کو تو ملتے ہیں، کربلا کی طرف تمام راستوں پر اس سے مختلف مناظر نہیں ہوتے۔ پیدل سفر کے دوران ہر عراقی کو ہاتھ جوڑ کر ایک ہی بات کہتے سنا کہ امام ؑکے نام پر رک جاﺅ، دستر خوان سے کچھ کھا لو۔ خدمات کی عجیب مثال قائم کرتے ہیں، جس سے جیسے بھی ممکن ہو، زائرین سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ جہاں سے بھی گزر ہو، آپ کو خوش آمدید کی آوازیں آتی ہیں۔ کربلا کے راستے میں زائرین کے لئے کیمپ میں ایک عراقی کو زائرین کو خدمت کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے پوچھا، آپ زائرین کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں، جب یہ کروڑوں لوگ اپنے وطن واپس چلے جاتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے۔؟ جانتے ہیں کہ دن رات زواروں کی خدمت کرنے والے شخص نے کیا کہا، اس شخص نے بہت ہی خوبصورت جواب دیا: "جب یہ زائرین یہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں تو گویا ہماری روح ہی نکل جاتی ہے، طویل انتظار کا سلسلہ شروع ہو جاتا کہ کب اربعین کے دن آئیں گے اور ہم زائرین کی خدمت کریں گے۔"
اس روحانی سفر کے مسافر ایک دوسرے کو "زائر" سے مخاطب کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ اگر کسی بوڑھی خاتون نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہوا ہے تو اس کی مدد کی جاتی۔ وہیل چئیر پر سفر کرنے والے معذور کو راستہ دیا جاتا، بچے، بوڑھے، خواتین اور جوانوں کی کثیر تعداد شامل تھی، ان میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، جو سینوں پر ہاتھ مارتے ہوئے، مرثیہ پڑھتے ہوئے، قدم بہ قدم بڑھتے جاتے ہیں۔ بوڑھے کمر سے چادر باندھے چستی اور پھرتی سے، جوان پرعزم قدموں سے کربلا کی سمت بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ راہ چلتے نماز ظہرین کا وقت ہوا تو قافلے رکے۔ سب نے وضو کیا، ہر موکب میں نماز قائم ہوئی۔
ظہر کی نماز ادا کی تو دیکھا دو اہلسنت بھائی بھی نماز ادا کر رہے تھے، جھٹ سے کیمرہ نکالا اور تصویر بنالی۔ نماز ادا ہو رہی تھی، کربلائے 61 ہجری باخدا بہت یاد آئی، نماز کے بعد مولانا صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "امام حسین ؑ نے تیروں کے سائے میں نماز ادا کی، جنگ میں بھی نماز کو ترک نہ کیا، امام کا کربلا کے صحرا میں دشمنوں کے نرغے میں نماز ادا کرنا، اسلام اور حق کی فتح کا اعلان تھا، نماز تو یزیدی بھی پڑھ چکے تھے، ان کی پوری کوشش تھی کہ امام حسینؑ ؑنماز ادا نہ کرسکیں۔ امامؑ کے اصحاب ِباوفا نے تیروں کو اپنے سینوں پر لیا، شہادت کا جام نوش کیا، یوں دفاعِ امام اور شعارِ اسلامی کا بے مثال دفاع کیا۔" ہم نے نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھایا، کچھ دیر ایک موکب میں استراحت کی اور پھر باقی کا سفر مکمل کرنے کو چل پڑے۔
شکریہ یاحسینؑ ہمیں یکجا کر دیا
راہِ عشق کے مسافروں کی زبانیں مختلف تھیں۔ کوئی فارسی، عربی، ترکی، استبولی تو کوئی اردو میں بات کر رہا تھا، زیادہ تعداد اہلِ ایران کی تھی، فارسی زبان یہاں سب سے زیادہ بولی جا رہی تھی، اس کے باوجود یہاں اپنائیت تھی، کوئی کسی سے دریافت نہیں کر رہا تھا کہ تم کون ہو؟ کہاں سے ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کیونکہ سب کی منزل ایک ہی تھی، یعنی کربلا۔ جغرافیائی سرحدوں کا فرق مٹ چکا تھا، زبانوں کا کوئی خیال نہیں رہا تھا، گورے کالے رنگ کا فرق بھی ختم ہوگیا تھا۔ سب کا ایک ہی رنگ تھا، یعنی حسینؑ کا رنگ، سب کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا، لبیک یاحسینؑ۔۔ کربلا کے اس روحانی اور بابرکت سفر میں سب سرحدی، سیاسی اختلاف کو بھلا چکے تھے۔ عراقی ایرانیوں کی خدمت کر رہے تھے۔ دونوں ممالک آٹھ سال جنگ میں رہے، مگر آج عراقی اور ایرانی باہم متحد نظر آرہے تھے۔ پاکستانی، بھارتی اور بنگالی بھی سارے اختلافات کو یکسر بھلا کر پرچمِ حُسینؑ تلے یکجا نظر آئے۔ چند کلومیٹر کی دوری پر پاکستانیوں کا موکب نظر آیا۔ ندیم سرور کی آواز میں سپیکر پر نوحہ خوانی ہو رہی تھی، بھارتی مسافر بھی یاحسینؑ کی صدا میں پاکستانی بھائیوں کے ہمراہ کھڑے تھے۔
عراقی، ایرانی، پاکستانی، بھارتی، یمنی، سعودی، افریقی، لبنانی، بحرینی اور مصری دل و روح سے امام عالی مقام کے شکرگزار تھے کہ امام حسین ؑنے انہیں ایک راہ اور ایک منزل پر یکجا کیا ہے۔ سب کو ایک نئی شناخت مل گئی تھی۔ راہیانِ سفر عشق و شعور، حسینِؑ زمان کے منتظرین اور زائرین کربلا ذرا بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ َسب امام حسینؑ کی محبت میں متحد تھے اور منزل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک ایسا سفر طے کر رہے تھے، جو دنیا بھر کی سیاحت سے بہترین سیاحت ہے، جس میں روحانیت ہے، حیرت بھی۔ شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے، ہر فرد مطمئن قلب کے ساتھ خدا کی رضا میں حرمِ امام ؑکی طرف گامزن تھا۔ درمیانی سٹرک پر پیدل چلنے والوں کی کثیر تعداد تھی، سڑک کی دوسری جانب شاہراہ پر گاڑیاں رواں دواں تھیں، جن پر کچھ مسافر سوار ہوکر کربلا جا رہے تھے۔ روڈ کے دوسری طرف کئی موکب تھے، نجف سے کربلا مجموعی طور پر 7 ہزار سے زائد موکب ہوتے ہیں۔ موکب کے نام شہدائے کربلا کے ناموں سے منسوب تھے، قبائل کے نام پر بھی اور کچھ موکب حرم ِ امامؑ کے نام پر نظر آئے۔
راستے کے اطراف میں کئی امام بارگاہیں ہیں، عراقی رات کو زائرین کو اپنے گھروں میں مہمان بناتے ہیں۔ شام ہوتے ہی مواکب میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ زائرین مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد تہجد کی نماز تک استراحت کرتے ہیں۔ اذانِ مغرب ہوئی تو نماز ادا کی۔ مواکب میں آرام کیلئے تلاش کی تو معلوم ہوا کہ مواکب زائرین سے بھرچکے ہیں۔ مجھے پریشانی لاحق ہوئی، ایک موکب کے پاس ایک عراقی کو صدا لگاتے سنا، وہ اپنی زبان میں اپنے گھر لے جانے کی دعوت دے رہا تھا۔ ساتھ میں کچھ اور بھی عراقی آواز لگا رہے تھے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ زائرین کو مہمان بنالیں۔ وہ عربی میں بتاتے تھے کہ سونے کے لئے بستر اور کھانے میں مرغوط غذائیں ہیں، ہمارے ساتھ چلیں۔ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ مجھے کس میزبان کے ساتھ جانا ہے، ایک عراقی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا میرے گھر میں کچھ ایرانی ہیں، آپ آجائیں، بالکل میں چل پڑا۔
اجنبی گھر میں اپنائیت
یہ علاقہ مین شاہراہ سے الگ تھا، راستے کی ویرانی اور اندھیرے سے انجانا خوف بھی آیا، اطمینان تھا کہ امام کی راہ میں نکلیں ہیں تو مولا وارث ہیں، گھر بوسیدہ تھا، مگر میزبان کا دِل پُرخلوص تھا۔ مہمانوں کے کمرے میں حضرت علی ؑ کی خیالی تصویر آویزاں تھی، ایسی تصویریں اہلِ عراق عمومی طور پہ لگاتے ہیں، مراجع کا بھی فتویٰ ہے کہ امام کی یا کسی مقدس شخصیت کی تصویر بشرطِ اس میں سے نقص نہ نکلے، خوبصورت ہو، بنانا اور لگانا جائز ہے۔ میں نے کمرے کی کچی دیوار پر مولا کی تصویر دیکھی تو مزید مطمئن ہوا۔ نرم بستر کمرے میں لگا دیئے گئے تھے۔ پُرتکلف ضیافت کے بعد قہوہ پیش کیا گیا، موبائل چارج کرنے کا انتظام بھی تھا۔ یہ عزت و اکرام صرف اس لئے تھا کہ ہم سب امام حسینؑ کے مہمان تھے۔
سونے کا ارادہ کرتے ہوئے تہجد کی نماز کیلئے الارم لگایا، گھر میں قیام کے دوران مجھے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ کچھ دیر استراحت کی۔ نمازِ شب ادا کی، شاندار پذیرائی پر میزبان کا شکریہ ادا کیا۔ تازہ دم ہوکر پھر سے کربلا کی راہ پر چل پڑے۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک موکب میں نماز فجر ادا کی۔ یہاں کی صبح بہت خوبصورت تھی، میرے لبوں پر دعائے صبح کے جملے سجے ہوئے تھے: "اے خدا میری صبح کو صالحین کی صبح قرار دے، اے خدا میری صبح کو خیر والی صبح قرار دے۔" دعا و مناجات کے بعد ناشتہ کیا۔ عراقیوں کے کھانے میں فلافل معروف ہے، ساتھ اگر قہوہ ہو جائے تو ناشتہ کافی ہوتا ہے، کھجور کے 2 دانے بھی طاقت بخشنے کو کافی ہوتے ہیں۔
پیادہ روی، ظہور کی طرف ایک قدم
کربلا کی طرف سفر جاری تھا، موکب سے موکب، قدم سے قدم، گویا چشمِ زدن ہر سانس مجھے امام ؑسے قریب تر کر رہی تھی۔ مجھے اپنی یادوں میں امام زمانہ (عج) کے ظہور کی نشانیوں سے منسوب احادیث یاد آرہی تھیں۔ "امام زماں جب آئیں گے تو ان کے سپاہی جو در جوق اپنے اپنے علاقوں سے امام کی طرف سفر کریں گے، وہ اس قدر تیز رفتاری سے امام کی طرف پہنچیں گے کہ جیسے پلکیں جھپکتے ہی کوئی کسی مقام پر موجود ہوگا، پھر ہر دم تیار اور ایستادہ لشکر ہوگا۔" یہ سب تو ضرور ہوگا۔ میں حیرت میں مبتلا تھا کہ اب بھی تو ویسا ہی منظر ہے، جو ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا، اب بھی تو قافلے امام کی طرف ایسے ہی رواں دواں ہیں، جیسے امام مہدی کے ظہور کے وقت ہوں گے۔ یہ اربعین ملین مارچ، یہ نجف سے کربلا پیادہ روی دراصل امام مہدی کے ظہور کی طرف ایک قدم ہے۔ ایک تیاری ہے، ایک ارادہ ہے، عزم ہے، جھلک ہے اور ایک وعدہ ہے کہ جب امام ظہور فرمائیں گے تو ہم سب ایسے ہی امام کے لشکر کا حصہ بنیں گے، ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک موکب پر عراقی نوجوان بلند آواز سے مسافروں کا استقبال کر رہے تھے:
اے زائرو خوش آمدید!
اے خوش نصبیوں خوش آمدید!
میری نظر ایک بینر پر پڑی، جس پر صاحبِ موکب کے بزرگوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ اس پر درج تھا "خادمین ِزوارِ حسینؑ۔" اہلِ عراق زائرین کے خدام ہونے پر فخر کرتے ہیں، اپنے نام کے ساتھ خادم ِزوار لکھتے ہیں، جیسے ہم حج و زیارت کی ادائیگی کی بعد لکھتے ہیں زوار، حاجی۔۔۔۔ عراقی بہت کریم ہیں، کیوں نہ ہوں، وہ کریم ِکربلا کے زائرین کے خدام ہیں۔ تاریخ میں کسی تحریک میں اس قدر شفقت اور کریمانہ خدمت کی مثال تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ نجف سے کربلا پیدل زیارت کرنے والوں کیلئے عراقیوں کی خدمت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ایسی محبت کہ جس کا نظارہ کہیں اور نظر نہیں آتا، ایسی چاہت کہ دل جس کا معترف ہو جائے، ایسی اپنائیت کہ اجنبیت کا احساس مٹ جائے، ایسا ماحول کہ جس میں آپ ایک بار جا کر ہمیشہ کیلئے کھو جائیں، ایسا منظر کہ جس کا نظارہ آپ کی آنکھوں میں گھر کر لے، ایسا سفر کہ آپ کو جنت کا احساس ہو۔
عراقیوں کی خدمت کی اور کیا مثال دوں، ایک عراقی نے بتایا کہ "سال بھر ماہِ صفر کا انتظار کرتے ہیں، کب ماہِ اربعین کا آغاز ہو، کب دنیا بھر سے امام ؑ کے عُشاق آئیں، تاکہ ہم ان کی خدمت کرسکیں۔ ہم ان کی خدمت کیلئے ہر وہ چیز لے آتے ہیں، جو ہمارے پاس ہوتی ہے۔" سارا سال انتظار کرتے ہیں، تاکہ بے مثال خدمت کریں، لیکن کریمِ کربلا کی کرامت سے ہمارا رزق کم نہیں ہوتا، مزید بڑھ جاتا ہے۔ ہم تو دعا کرتے ہیں، ہمارا نقصان ہی ہو جائے، ہم زائرین کی خدمت کرتے ہوئے امام سے کچھ مانگتے تو نہیں، مگر ہمارے رزق میں برکت اور فراوانی ہو جاتی ہے، جو ہمارے کسی اور عمل سے نہیں ہوتی۔" اہلِ عراق کی بیشتر تعداد مالدار نہیں ہے، لیکن زائرین کی بے مثال خدمت کرتے ہیں۔ کسی کے پاس اگر شامی انڈہ بنانے کی سکت ہے یا شوارما بنانے کی، چائے کا سٹال لگانے کی استطاعت ہے تو خلوصِ دِل سے اہتمام کرتا ہے۔
مہمان نوازی کے مناظر نجف سے کربلا دیکھنے کو تو ملتے ہیں، کربلا کی طرف تمام راستوں پر اس سے مختلف مناظر نہیں ہوتے۔ پیدل سفر کے دوران ہر عراقی کو ہاتھ جوڑ کر ایک ہی بات کہتے سنا کہ امام ؑکے نام پر رک جاﺅ، دستر خوان سے کچھ کھا لو۔ خدمات کی عجیب مثال قائم کرتے ہیں، جس سے جیسے بھی ممکن ہو، زائرین سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ جہاں سے بھی گزر ہو، آپ کو خوش آمدید کی آوازیں آتی ہیں۔ کربلا کے راستے میں زائرین کے لئے کیمپ میں ایک عراقی کو زائرین کو خدمت کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے پوچھا، آپ زائرین کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں، جب یہ کروڑوں لوگ اپنے وطن واپس چلے جاتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے۔؟ جانتے ہیں کہ دن رات زواروں کی خدمت کرنے والے شخص نے کیا کہا، اس شخص نے بہت ہی خوبصورت جواب دیا: "جب یہ زائرین یہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں تو گویا ہماری روح ہی نکل جاتی ہے، طویل انتظار کا سلسلہ شروع ہو جاتا کہ کب اربعین کے دن آئیں گے اور ہم زائرین کی خدمت کریں گے۔"
اس روحانی سفر کے مسافر ایک دوسرے کو "زائر" سے مخاطب کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ اگر کسی بوڑھی خاتون نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہوا ہے تو اس کی مدد کی جاتی۔ وہیل چئیر پر سفر کرنے والے معذور کو راستہ دیا جاتا، بچے، بوڑھے، خواتین اور جوانوں کی کثیر تعداد شامل تھی، ان میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، جو سینوں پر ہاتھ مارتے ہوئے، مرثیہ پڑھتے ہوئے، قدم بہ قدم بڑھتے جاتے ہیں۔ بوڑھے کمر سے چادر باندھے چستی اور پھرتی سے، جوان پرعزم قدموں سے کربلا کی سمت بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ راہ چلتے نماز ظہرین کا وقت ہوا تو قافلے رکے۔ سب نے وضو کیا، ہر موکب میں نماز قائم ہوئی۔
ظہر کی نماز ادا کی تو دیکھا دو اہلسنت بھائی بھی نماز ادا کر رہے تھے، جھٹ سے کیمرہ نکالا اور تصویر بنالی۔ نماز ادا ہو رہی تھی، کربلائے 61 ہجری باخدا بہت یاد آئی، نماز کے بعد مولانا صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "امام حسین ؑ نے تیروں کے سائے میں نماز ادا کی، جنگ میں بھی نماز کو ترک نہ کیا، امام کا کربلا کے صحرا میں دشمنوں کے نرغے میں نماز ادا کرنا، اسلام اور حق کی فتح کا اعلان تھا، نماز تو یزیدی بھی پڑھ چکے تھے، ان کی پوری کوشش تھی کہ امام حسینؑ ؑنماز ادا نہ کرسکیں۔ امامؑ کے اصحاب ِباوفا نے تیروں کو اپنے سینوں پر لیا، شہادت کا جام نوش کیا، یوں دفاعِ امام اور شعارِ اسلامی کا بے مثال دفاع کیا۔" ہم نے نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھایا، کچھ دیر ایک موکب میں استراحت کی اور پھر باقی کا سفر مکمل کرنے کو چل پڑے۔
شکریہ یاحسینؑ ہمیں یکجا کر دیا
راہِ عشق کے مسافروں کی زبانیں مختلف تھیں۔ کوئی فارسی، عربی، ترکی، استبولی تو کوئی اردو میں بات کر رہا تھا، زیادہ تعداد اہلِ ایران کی تھی، فارسی زبان یہاں سب سے زیادہ بولی جا رہی تھی، اس کے باوجود یہاں اپنائیت تھی، کوئی کسی سے دریافت نہیں کر رہا تھا کہ تم کون ہو؟ کہاں سے ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کیونکہ سب کی منزل ایک ہی تھی، یعنی کربلا۔ جغرافیائی سرحدوں کا فرق مٹ چکا تھا، زبانوں کا کوئی خیال نہیں رہا تھا، گورے کالے رنگ کا فرق بھی ختم ہوگیا تھا۔ سب کا ایک ہی رنگ تھا، یعنی حسینؑ کا رنگ، سب کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا، لبیک یاحسینؑ۔۔ کربلا کے اس روحانی اور بابرکت سفر میں سب سرحدی، سیاسی اختلاف کو بھلا چکے تھے۔ عراقی ایرانیوں کی خدمت کر رہے تھے۔ دونوں ممالک آٹھ سال جنگ میں رہے، مگر آج عراقی اور ایرانی باہم متحد نظر آرہے تھے۔ پاکستانی، بھارتی اور بنگالی بھی سارے اختلافات کو یکسر بھلا کر پرچمِ حُسینؑ تلے یکجا نظر آئے۔ چند کلومیٹر کی دوری پر پاکستانیوں کا موکب نظر آیا۔ ندیم سرور کی آواز میں سپیکر پر نوحہ خوانی ہو رہی تھی، بھارتی مسافر بھی یاحسینؑ کی صدا میں پاکستانی بھائیوں کے ہمراہ کھڑے تھے۔
عراقی، ایرانی، پاکستانی، بھارتی، یمنی، سعودی، افریقی، لبنانی، بحرینی اور مصری دل و روح سے امام عالی مقام کے شکرگزار تھے کہ امام حسین ؑنے انہیں ایک راہ اور ایک منزل پر یکجا کیا ہے۔ سب کو ایک نئی شناخت مل گئی تھی۔ راہیانِ سفر عشق و شعور، حسینِؑ زمان کے منتظرین اور زائرین کربلا ذرا بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ َسب امام حسینؑ کی محبت میں متحد تھے اور منزل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک ایسا سفر طے کر رہے تھے، جو دنیا بھر کی سیاحت سے بہترین سیاحت ہے، جس میں روحانیت ہے، حیرت بھی۔ شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے، ہر فرد مطمئن قلب کے ساتھ خدا کی رضا میں حرمِ امام ؑکی طرف گامزن تھا۔ درمیانی سٹرک پر پیدل چلنے والوں کی کثیر تعداد تھی، سڑک کی دوسری جانب شاہراہ پر گاڑیاں رواں دواں تھیں، جن پر کچھ مسافر سوار ہوکر کربلا جا رہے تھے۔ روڈ کے دوسری طرف کئی موکب تھے، نجف سے کربلا مجموعی طور پر 7 ہزار سے زائد موکب ہوتے ہیں۔ موکب کے نام شہدائے کربلا کے ناموں سے منسوب تھے، قبائل کے نام پر بھی اور کچھ موکب حرم ِ امامؑ کے نام پر نظر آئے۔
راستے کے اطراف میں کئی امام بارگاہیں ہیں، عراقی رات کو زائرین کو اپنے گھروں میں مہمان بناتے ہیں۔ شام ہوتے ہی مواکب میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ زائرین مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد تہجد کی نماز تک استراحت کرتے ہیں۔ اذانِ مغرب ہوئی تو نماز ادا کی۔ مواکب میں آرام کیلئے تلاش کی تو معلوم ہوا کہ مواکب زائرین سے بھرچکے ہیں۔ مجھے پریشانی لاحق ہوئی، ایک موکب کے پاس ایک عراقی کو صدا لگاتے سنا، وہ اپنی زبان میں اپنے گھر لے جانے کی دعوت دے رہا تھا۔ ساتھ میں کچھ اور بھی عراقی آواز لگا رہے تھے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ زائرین کو مہمان بنالیں۔ وہ عربی میں بتاتے تھے کہ سونے کے لئے بستر اور کھانے میں مرغوط غذائیں ہیں، ہمارے ساتھ چلیں۔ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ مجھے کس میزبان کے ساتھ جانا ہے، ایک عراقی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا میرے گھر میں کچھ ایرانی ہیں، آپ آجائیں، بالکل میں چل پڑا۔
اجنبی گھر میں اپنائیت
یہ علاقہ مین شاہراہ سے الگ تھا، راستے کی ویرانی اور اندھیرے سے انجانا خوف بھی آیا، اطمینان تھا کہ امام کی راہ میں نکلیں ہیں تو مولا وارث ہیں، گھر بوسیدہ تھا، مگر میزبان کا دِل پُرخلوص تھا۔ مہمانوں کے کمرے میں حضرت علی ؑ کی خیالی تصویر آویزاں تھی، ایسی تصویریں اہلِ عراق عمومی طور پہ لگاتے ہیں، مراجع کا بھی فتویٰ ہے کہ امام کی یا کسی مقدس شخصیت کی تصویر بشرطِ اس میں سے نقص نہ نکلے، خوبصورت ہو، بنانا اور لگانا جائز ہے۔ میں نے کمرے کی کچی دیوار پر مولا کی تصویر دیکھی تو مزید مطمئن ہوا۔ نرم بستر کمرے میں لگا دیئے گئے تھے۔ پُرتکلف ضیافت کے بعد قہوہ پیش کیا گیا، موبائل چارج کرنے کا انتظام بھی تھا۔ یہ عزت و اکرام صرف اس لئے تھا کہ ہم سب امام حسینؑ کے مہمان تھے۔
سونے کا ارادہ کرتے ہوئے تہجد کی نماز کیلئے الارم لگایا، گھر میں قیام کے دوران مجھے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ کچھ دیر استراحت کی۔ نمازِ شب ادا کی، شاندار پذیرائی پر میزبان کا شکریہ ادا کیا۔ تازہ دم ہوکر پھر سے کربلا کی راہ پر چل پڑے۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک موکب میں نماز فجر ادا کی۔ یہاں کی صبح بہت خوبصورت تھی، میرے لبوں پر دعائے صبح کے جملے سجے ہوئے تھے: "اے خدا میری صبح کو صالحین کی صبح قرار دے، اے خدا میری صبح کو خیر والی صبح قرار دے۔" دعا و مناجات کے بعد ناشتہ کیا۔ عراقیوں کے کھانے میں فلافل معروف ہے، ساتھ اگر قہوہ ہو جائے تو ناشتہ کافی ہوتا ہے، کھجور کے 2 دانے بھی طاقت بخشنے کو کافی ہوتے ہیں۔
پیادہ روی، ظہور کی طرف ایک قدم
کربلا کی طرف سفر جاری تھا، موکب سے موکب، قدم سے قدم، گویا چشمِ زدن ہر سانس مجھے امام ؑسے قریب تر کر رہی تھی۔ مجھے اپنی یادوں میں امام زمانہ (عج) کے ظہور کی نشانیوں سے منسوب احادیث یاد آرہی تھیں۔ "امام زماں جب آئیں گے تو ان کے سپاہی جو در جوق اپنے اپنے علاقوں سے امام کی طرف سفر کریں گے، وہ اس قدر تیز رفتاری سے امام کی طرف پہنچیں گے کہ جیسے پلکیں جھپکتے ہی کوئی کسی مقام پر موجود ہوگا، پھر ہر دم تیار اور ایستادہ لشکر ہوگا۔" یہ سب تو ضرور ہوگا۔ میں حیرت میں مبتلا تھا کہ اب بھی تو ویسا ہی منظر ہے، جو ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا، اب بھی تو قافلے امام کی طرف ایسے ہی رواں دواں ہیں، جیسے امام مہدی کے ظہور کے وقت ہوں گے۔ یہ اربعین ملین مارچ، یہ نجف سے کربلا پیادہ روی دراصل امام مہدی کے ظہور کی طرف ایک قدم ہے۔ ایک تیاری ہے، ایک ارادہ ہے، عزم ہے، جھلک ہے اور ایک وعدہ ہے کہ جب امام ظہور فرمائیں گے تو ہم سب ایسے ہی امام کے لشکر کا حصہ بنیں گے، ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment