Today news

Sunday, August 28, 2022

اسرائیل کی خاطر سعودیہ کی امریکہ سے طلاق کی تصدیق

 عبدالمجید عزیزی

Sunday 28-8-2022

عالمی میڈیا کے مطابق امریکی صدر اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی منظوری دیں گے، اگر یہ امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہوا تو۔ وائٹ ہاؤس نے یہ بھی کہا ہے کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی جوہری معاہدے کے حوالے سے تمام حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے باوجود ایرانی حکومت کی ایکسپیڈینسی کونسل جوہری معاہدے کے فارمولے سے متعلق امریکی ردعمل کا مطالعہ کر رہی ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر کونسل نے امریکی جواب کی منظوری دی تو جوہری معاہدے پر دستخط پانچ ستمبر کو ہوں گے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق تہران نے امریکی ردعمل کا بغور مطالعہ شروع کر دیا ہے اور اس کی رائے یورپی رابطہ کار تک پہنچائی جائے گی، جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں باہمی واپسی کے لیے سفارتی راستے پر گامزن ہے، نیڈ پرائس کے مطابق ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی باہمی واپسی امریکا کے مفاد میں ہے، امریکہ کے نزدیک ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے سفارت کاری بہترین آپشن ہے۔ لیکن میڈیا رپورٹس یہ بھی ہیں کہ واشنگٹن نے یورپی تجویز کے جواب میں تہران کی جانب سے رکھی گئی تمام اضافی شرائط کو مسترد کر دیا ہے۔
موجودہ حالات میں امریکہ خود دباو کا شکار ہے، لیکن امریکہ نواز سعودی رجیم نے ایران کیساتھ سفارت کاری کو بہترین آپشن قرار دیئے جانے کو امریکہ کیطرف سے دھوکہ قرار دیا ہے۔ ان کی خواہش، بلکہ خوف پر مبنی یہ کوشش ہے کہ امریکہ جارحیت یا جنگ کا راستہ اپنائے۔ اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کی امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، بلکہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ 2015ء کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات کے متوازی طور پر ایران کے خلاف فوجی آپشن تیار کر رہی ہے۔ گینٹز فلوریڈا میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں بات چیت کے ایک دن بعد واشنگٹن پہنچے، جس میں خطے میں ایران اور مقاومتی محاذ کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے پر بھی بات چیت کی گئی، جبکہ اس بارے میں وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ سلیوان اور گینٹز نے واشنگٹن میں امریکا کے اس عزم کو یقینی بنانے کے بارے میں بات کی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے۔ سلیوان اور گینٹز نے خطے میں مقاومتی محاذ کی طرف سے خطرات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔ لیکن حقیقت میں اب امریکہ مشرق وسطیٰ مین شکست کھا چکا ہے اور امریکہ کو چین سمیت دوسرے خطرات کا سامنا ہے، مشرق وسطیٰ سے امریکیوں کا بوریا بستر لپیٹا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین وار ایک دوسرا محاذ ہے، جہاں امریکہ نے یورپ کو تنہا چھوڑ دیا ہے، لیکن مدمقال روس کو ایران، ترکی اور چین کی واضح حمایت حاصل ہے۔
اس کی وجہ صاف ہے کہ نئی امریکی حکومت کے آتے ہی امریکہ کے اندرونی حالات بھی خراب ہوئے ہیں اور خارجی تعلقات بالخصوص افغانستان اور عراق میں امریکہ کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی، اس سے پاکستان، سعودی عرب اور اسرائیل کیساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ اس کے اثرات مذکورہ ممالک کی سیاست کیساتھ ساتھ معاشروں پر بھی مرتب ہوئے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی شکست کا الزام پاکستان پر لگایا، پھر رجیم چینج آپریشن کیوجہ سے عوامی سطح پر بھی امریکہ کے ساتھ نفرت میں اضافہ ہوا۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگے، سوشل میڈیا پر امریکہ کا ٹرائل اب بھی جاری ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بھی سرد مہری دیکھنے میں آئی۔ پاکستان کو اسوقت سعودی دوستوں سے مایوسی ہوئی، جب بھارت کیساتھ تجارتی تعلقات کو پاکستان کو پس بشت ڈال کر فروغ دیا گیا اور ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے حوالے سے سعودی حمایت کی بجائے پاکستان کو مخالفت کا سامنا رہا۔ لیکن اس دوران سعودی عرب کے امریکہ سے بھی تعلقات مثالی نہیں رہے۔ جس طرح پاکستان میں رائے عامہ میں تبدیلی اور امریکہ مخالف جذبات میں تبدیلی اور تیزی آئی، اسی طرح سعودی معاشرے اور سعودی رجیم کی طرف سے بھی امریکہ کے متعلق سرد مہری اور مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سعودی صفوں میں امریکی نوازی کے حوالوں کیساتھ امریکی ناقدری کو اس طرح بیان کیا جا رہا ہے کہ جیسے میاں بیوی کے مثالی تعلقات میں تلخی پیدا پیدا ہونے اور طلاق کی نوبت آنے کا واویلا کیا جا رہا ہو۔ سعودی میڈیا میں لکھنے والے ایک امریکہ نواز لکھاری کا کہنا ہے کہ ہم مدتوں سے تعلیم کے لیے امریکا جانے والے سعودی شہری امریکا سے محبت کرتے ہیں اور تعلقات مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، مگر اب ہمین اس بارے میں امریکیوں کی غیر حقیقت پسندی نے پریشان کر رکھا ہے۔ سعودی رائے عامہ بنانے اور بگاڑنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکی سعودیوں کی اس پریشانی کو سمجھنے میں ناکام ہیں کہ امریکہ نواز سعودی رجیم اور وائٹ ہاوس کے درمیان دراڑ کتنی گہری ہوچکی ہے۔؟ قومی وقار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سعودی میڈیا نہایت ڈھٹائی کیساتھ یہ پھیلا رہا ہے کہ جب صدر براک اوباما نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کی تو ہم سعودیوں نے یہی سمجھا کہ امریکی سعودی رجیم کیساتھ 70 سالہ شادی کو توڑنے کے خواہاں ہیں۔ سعودی رجیم کے قلمکاروں میں یہ احساس ایٹمی معاہدے، روس ایران تعلقات، یمن اور شام میں مقاومتی محاذ کی کامیابیوں اور سعودی تنصبیات پر کامیاب حملوں کی وجہ سے تقویت پا رہا ہے کہ امریکہ کے لیے خلیجی ریاستیں اور صہیونی ریاست اسرائیل دوسرے درجے کے اتحادی بن چکے ہیں اور امریکہ ان حملوں کا ناکام بنانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا تھا۔
مثال کے طور پر اس سال مارچ میں وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے نیگیف میں اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپیڈ کی میزبانی میں ہونیوالی ایک کانفرنس میں شرکت کی، جس میں متعدد عرب وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی۔ امریکہ نواز سعودیوں کو یہ اعتراض تھا کہ بلینکن نے اس موقع پر علاقائی یک جہتی کی بات کیوں کی اور اوبامہ دور سے ہی چلی آرہی جوہری معاہدے سے پیدا ہونے والی دراڑ کو پاٹنے کی بھی کوشش نہیں کی، اسے سعودی عرب نے امریکہ کے علاقائی دوستوں کیساتھ دھوکہ قرار دیا، امریکیوں کو باور کروایا گیا کہ امریکی انتظامیہ نہ صرف خطے کے دوست اور اتحادی ممالک کو فریب دے رہی ہے، بلکہ امریکی عوام کو جوہری اسلحہ پر قابو پانے کے نام پر دھوکہ دہی سے فروخت کیا گیا ہے، یہ معاہدہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کی بالادستی پر مبنی علاقائی طور پر قائم ہونیوالے امریکی سعودی اور صہیونی نظام پر ایک حملہ ہے۔ ایران کیساتھ ڈیل کی بات کا مطلب سعودی عرب اور اسرائیل سے دشمنی ہے۔ اسی طرح یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی قیادت میں علاقائی سلامتی کے ڈھانچے میں سعودیہ اور اسرائیل کی بجائے روس اور چین کی حمایت سے ایران امریکا کا نیا ذیلی ٹھیکیدار بن رہا ہے، جبکہ امریکا کے سابق اتحادی یعنی خلیجی ریاستیں اور اسرائیل دوسرے درجے کی حیثیت میں چلے گئے ہیں۔ امریکہ اور ایران کے تعلقات اور باہمی جنگ و کشیدگی پر نظر رکھنے والوں کے لیے بے شک یہ مضحکہ خیز ہے، لیکن سعودی رجیم پھٹی آنکھوں کیساتھ امریکہ کو ہی سرپرستی کے لیے اصرار کر رہے ہیں۔
انکا خیال ہے کہ یہ معاہدہ امریکا کی طرف سے ایران پر قابو پانے سے دستبرداری کے مترداف ہے، اس امریکی رویئے کے نتیجے میں ایران کی حمایت سے برسرپیکار قوتوں کے حملوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ خائن اور ڈرپوک سعودی رجیم کو خوف لاحق ہے کہ موجودہ صورت میں یہ معاہدہ ایران کے لیے جوہری بم کی راہ ہموار کرتا ہے اور سپاہ پاسداران انقلاب کی پوری عرب خطے میں پھیلی جنگی قوت میں بے پناہ اضافے کا سبب ہے، جس کا ہدف علاقے میں سعودی اور صہیونی دونوں امریکہ نواز حکومتیں ہیں، یہ لوگ پہلے ہی امریکا کی طرف دیکھ رہے تھے، تاکہ ان کی حفاظت کی ضمانت دینے میں مدد مل سکے۔ جدہ میں آرامکو کی تنصیب پر راکٹ حملہ ان حملوں کے ایک طویل سلسلے کا صرف ایک وار تھا۔ سعودی رجیم کو امریکہ سے ایران کیخلاف براہ راست حملے کی امید تھی، لیکن اوباما کی طرح جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امریکہ نواز علاقائی اتحادیوں کو  صرف یہ سننے کو ملا کہ سعودی عرب کو کشیدگی میں اضافے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ ایران پر امریکی حملہ نہ ہونے کیوجہ سے عرب اتحادی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا خطے میں اپنے پھٹووں کیساتھ وفاداری کے بجائے اپنے پرانے دوستوں کو ایران کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے، یعنی امریکہ خود ایران سے خائف ہے، جو ایران کے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ نواز عربوں کا یہ کہنا ہے کہ امریکہ کے اس طرز عمل سے امریکہ نے دنیا میں حمایت حاصل کرنے میں ایران کی مدد کی تھی۔
اسی طرح امریکہ نواز عرب یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی ایران کے خلاف اسرائیل کا ساتھ نہیں دیں گے، تو وہ ہمارے ساتھ کیا ہوں گے۔؟ جیسا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی ستمبر 2019ءمیں ابقیق ریفائنری پر حملے کے بعد الریاض کو ایران کو روکنے میں مدد دینے میں ناکام رہے تھے۔ سعودی اس لیے بھی نالاں ہیں کہ اوبامہ دور میں بھی یوکرین پر روسی حملے کے بعد شام میں روس اور ایران کا اتحاد مضبوط ہوا۔ امریکہ نے روس کو مشرقی بحیرہ روم کے کنارے فوجی اڈے بنانے کا موقع دیا۔ جس سے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ مشرق وسطیٰ میں روس کے قدم مضبوط ہوئے، اعتراض کرنے پر امریکہ نے کہا کہ خطے میں امریکی اتحادیوں کو ایران کے ساتھ کیسے رہنا ہے، اس کو سیکھیں۔ اوبامہ دور کی یہ تلخی امریکی اتحادیوں کے ذہنوں میں تازہ ہے اور اسی دوران جوبائیڈن سعودی عرب سے یوکرین کے حق میں روس کے خلاف مدد کے خواہاں ہیں اور تیل کی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے عرب اتحادی یہ سمجھتے ہیں کہ خود امریکی روس کو پابندیوں سے چھوٹ دے رہے ہیں، تاکہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی ضمانت جاری رکھ سکے، یہی وجہ ہے کہ جزوی طور پر ایران کے یورینیم کے ذخائر کو بڑھانے اور جوہری ہتھیاروں کے لیے سینٹری فیوجز سے بھری پڑی اس کی زیر زمین جوہری تنصیبات کی حفاظت کر رہا ہے۔
سعودیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے طرز عمل سے مشرق وسطیٰ میں روس اور ایران کو مضبوط کر رہا ہے، تو امریکا کے علاقائی اتحادی واشنگٹن کی یورپ میں روس پر قابو پانے میں کیوں مدد کریں۔؟ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی لطیفہ گوئی کرتے ہوئے ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں کہ جو ہمارا اتحادی بنے گا، اسے ہمارے پاس ناشتے میں جو کچھ بھی پیش کیا جاتا ہے، اسے کھانا ہوگا اور اسی کھانے کو دوپہر میں کھانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، جو کہ انتہائی متکبرانہ اور ہتک آمیز ہے۔ اسی طرح جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے انسانی حقوق کے نام پر یمن جنگ میں سعودیہ کی بے چینی بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ دوسری جانب چینی صدر شی جن سعودی عرب کو لیڈنگ ٹریڈ پارٹنر قرار دے چکے ہیں اور وہ سال کے آخر میں ریاض کے دورے پر بھی آرہے ہیں، جہاں جوبائیڈن کے برعکس صدر شی کا استقبال والہانہ انداز میں ہوگا۔ لیکن چین سعودیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو امریکہ کی قیمت پر بڑھانے کا خواہشمند ہے۔ سعودی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی بجائے چین کی پالیسی سادہ ہے اور بیجنگ ریاض کو ایک سادہ سا معاہدہ پیش کر رہا ہے کہ ہمیں اپنا تیل فروخت کریں اور ہمارے کیٹلاگ سے جو بھی فوجی ساز و سامان چاہیں، اس کا انتخاب کریں اور اس کے بدلے میں توانائی کی عالمی منڈیوں کو مستحکم کرنے میں ہماری مدد کریں۔
دوسرے لفظوں میں، چینی وہ پیش کش کر رہے ہیں، جو امریکا اور سعودی معاہدے کا ایک اور نمونہ نظر آتی ہے، جس نے بقول سعودی رجیم اور امریکی اتحادیوں مشرق وسطیٰ کو 70 سال تک مستحکم کیے رکھا ہے۔ لیکن سعودیوں کے لیے ابھی یہ واضح نہیں کہ کیا چینی ایران کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔؟ چینی صدر ریاض آئیں گے تو سعودی رجیم ان سے استفسار کرے گی کہ کیا ایران کی جانب سے سعودیہ کی تیل کی تنصیبات پر حملے اور کشیدگی میں اضافہ، چین کے مفاد میں ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا بیجنگ اسے روک سکتا ہے۔؟ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مقاومتی محاذ نے جس عبرتناک انداز میں امریکہ کو شکست دی ہے، اس کے بعد صیہونی اور سعودی رجیم زبردست خوف میں مبتلا ہے، جس سے نہ صرف ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں بلکہ انہیں اپنا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے، امریکیوں سے گلے شکوے انہیں ڈھارس نہیں دے پا رہے اور دوسری طرف چین سے بھی تجارت کے بدلے کسی چھتری یا حفاظتی شیلڈ کی توقع نہیں۔ امریکہ سے طلاق کا معاملہ ابھی لٹکا ہوا اور چین سے منگنی کی بات بھی چل رہی ہے، یہ حال ہے دنیا کی امیر عرب مملکت کا، کیسی بادشاہت اور کیسے شہشاہ، یہ تو غلامی سے بھی بدتر زندگی ہے۔

 

No comments: