Today news

Sunday, August 28, 2022

بحرین، اہل تشیع کے خلاف آل خلیفہ رژیم کا شدید امتیازی سلوک

 علی احمدی

Sunday 28-8-2022

 

بحرین پر حکمفرما آل خلیفہ رژیم نے گذشتہ ایک عرصے سے اہل تشیع شہریوں کے خلاف شدید امتیازی اور ظلم و ستم پر مبنی رویہ اپنا رکھا ہے۔ بحرینی حکومت کی جانب سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ قوانین بھی وضع کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور شدید قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختلف میڈیا ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان پابندیوں کا مقصد بحرینی شیعہ مسلمانوں کو عراق، ایران اور شام مقامات مقدسہ کی زیارات پر جانے سے روکنا ہے۔ شیعہ شہریوں کو پاسپورٹ نہیں دیا جاتا اور یوں بحرین کو ان کیلئے جیل بنا دیا گیا ہے۔ اس وقت امام حسین علیہ السلام کا چہلم قریب ہے اور دنیا بھر سے اہلبیت اطہار علیہم السلام سے عقیدت رکھنے والے افراد کربلا سفر کرنے کے خواہش مند ہیں۔
 
بحرین میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بارہا اس امتیازی رویے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں لیکن بحرینی حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بحرین میں انسانی حقوق کے مرکز نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے: "ملک میں شخصی اور اجتماعی آزادی کو محدود کرنے والا یہ اقدام کالعدم ہونا چاہئے کیونکہ اس کے نتیجے میں خاص طور پر شیعہ مسلمان شدید امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شکار ہو رہے ہیں۔" یاد رہے 2020ء میں بحرینی حکام نے کرونا وائرس کی روک تھام کے بہانے شیعہ شہریوں پر ایران، عراق اور شام میں مقدس مقامات پر زیارت کیلئے جانے پر پابندی عائد کر دی تھی جو اب تک جاری ہے۔ اس میں اربعین کی مناسبت سے نجف اور کربلا سفر کرنے پر بھی پابندی شامل ہے۔
 
اسی قانون کے تناظر میں بحرینی حکومت نے انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور بندرگاہ پر ایران، عراق اور شام سفر کرنے کی غرض سے آنے والے سینکڑوں شیعہ شہریوں کو واپس بھیج دیا ہے۔ مزید برآں، محرم الحرام کے مہینے میں بھی آل خلیفہ رژیم نے شیعہ مسلمانوں کی جانب سے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے غم میں عزاداری اور مجالس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جبکہ ماضی میں ہر سال عاشورا کی مناسبت سے سینکڑوں بحرین شیعہ مسلمان کربلا کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ اس بارے میں شیعہ مسلمانوں کی جماعت الوفاق نے کہا: "آل خلیفہ رژیم ایک طرف شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرنے کا دعوی کرتی ہے جبکہ دوسری طرف انہیں زیارت کیلئے مقدس مقامات کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔"
 
 
بحرین کے وزیر داخلہ راشد بن عبداللہ آل خلیفہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے محرم الحرام میں خلیجی ریاستوں کے شہریوں کی بحرین آمد پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پابندی کا مقصد مذہبی تبلیغ کو روکنا ہے کیونکہ یہ آل خلیفہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ یاد رہے بحرین کی آبادی کی اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور انہیں حتی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایسی دستاویزات سامنے آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آل خلیفہ رژیم نے محرم الحرام کے مہینے میں خطباء اور ذاکرین کے خلاف بھی شدید ظالمانہ اقدامات انجام دیے ہیں۔ مثال کے طور پر بحرین کے ایک معروف خطیب شیخ حسن العالی کو تھانے میں بلا کر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی۔
 
آل خلیفہ رژیم 1975ء سے بحرین پر حکمفرما ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے شائع کردہ رپورٹس میں ہمیشہ اس کا نام آل سعود رژیم کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب اور بحرین کی حکومتوں کی مشترکہ خصلت شیعہ مسلمانوں کے خلاف شدید ظالمانہ اقدامات انجام دینا ہے۔ آل خلیفہ رژیم انتہائی تعصب کا شکار قبائلی سوچ کی حامل ہے اور اس نے شیعہ شہریوں کو منظم انداز میں ظلم و ستم کا نشانہ بنا رکھا ہے اور باقاعدہ قوانین وضع کر کے شیعہ شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف بحرین کے سرکاری ذرائع ہمیشہ یہ ظاہر کرتے آئے ہیں کہ حکومت شہریوں کے حقوق کا مکمل خیال رکھتی ہے اور بحرینی شہری مکمل مذہبی آزادی سے برخوردار ہیں۔
 
بحرین میں حکومت کی جانب سے شہریوں کے ساتھ امتیازی رویے کی نوعیت دنیا کے دیگر ممالک سے بالکل مختلف ہے۔ اکثر ممالک میں حکومت کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے شہری اقلیت کا شکار ہوتے ہیں لیکن بحرین میں شیعہ مسلمان اکثریت ہونے کے باوجود حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی زد پر ہیں۔ یاد رہے بحرین میں کل آبادی کا 75 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس سال حکومت کی جانب سے شیعہ شہریوں پر ظلم و ستم کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بحرین کے معروف مذہبی رہنما شیخ عیسی قاسم نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ قیدیوں کے خلاف کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔ شیعہ شہریوں کو سیاست، معیشت اور ثقافت کے شعبوں سے دور رکھنا بحرینی حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، چینی وہ پیش کش کر رہے ہیں، جو امریکا اور سعودی معاہدے کا ایک اور نمونہ نظر آتی ہے، جس نے بقول سعودی رجیم اور امریکی اتحادیوں مشرق وسطیٰ کو 70 سال تک مستحکم کیے رکھا ہے۔ لیکن سعودیوں کے لیے ابھی یہ واضح نہیں کہ کیا چینی ایران کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔؟ چینی صدر ریاض آئیں گے تو سعودی رجیم ان سے استفسار کرے گی کہ کیا ایران کی جانب سے سعودیہ کی تیل کی تنصیبات پر حملے اور کشیدگی میں اضافہ، چین کے مفاد میں ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا بیجنگ اسے روک سکتا ہے۔؟ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مقاومتی محاذ نے جس عبرتناک انداز میں امریکہ کو شکست دی ہے، اس کے بعد صیہونی اور سعودی رجیم زبردست خوف میں مبتلا ہے، جس سے نہ صرف ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں بلکہ انہیں اپنا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے، امریکیوں سے گلے شکوے انہیں ڈھارس نہیں دے پا رہے اور دوسری طرف چین سے بھی تجارت کے بدلے کسی چھتری یا حفاظتی شیلڈ کی توقع نہیں۔ امریکہ سے طلاق کا معاملہ ابھی لٹکا ہوا اور چین سے منگنی کی بات بھی چل رہی ہے، یہ حال ہے دنیا کی امیر عرب مملکت کا، کیسی بادشاہت اور کیسے شہشاہ، یہ تو غلامی سے بھی بدتر زندگی ہے۔

اسی طرح جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے انسانی حقوق کے نام پر یمن جنگ میں سعودیہ کی بے چینی بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ دوسری جانب چینی صدر شی جن سعودی عرب کو لیڈنگ ٹریڈ پارٹنر قرار دے چکے ہیں اور وہ سال کے آخر میں ریاض کے دورے پر بھی آرہے ہیں، جہاں جوبائیڈن کے برعکس صدر شی کا استقبال والہانہ انداز میں ہوگا۔ لیکن چین سعودیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو امریکہ کی قیمت پر بڑھانے کا خواہشمند ہے۔ سعودی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی بجائے چین کی پالیسی سادہ ہے اور بیجنگ ریاض کو ایک سادہ سا معاہدہ پیش کر رہا ہے کہ ہمیں اپنا تیل فروخت کریں اور ہمارے کیٹلاگ سے جو بھی فوجی ساز و سامان چاہیں، اس کا انتخاب کریں اور اس کے بدلے میں توانائی کی عالمی منڈیوں کو مستحکم کرنے میں ہماری مدد کریں۔

No comments: