اعجاز علی
بلوچستان کی خشک سرزمین میں چند مہینے قبل لوگ بارش کی دعائیں مانگ
رہے تھے۔ ابر رحمت کی آمد کی تمنائیں دلوں میں تھیں، مگر جب بارش ہوئی تو ایسی
ہوئی کہ ہزاروں گھروں کو اجاڑ کر گزر گئی، ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے اور سینکڑوں لوگ
موت سے جا ملے۔ ابھی بھی جہاں نظر اٹھتی ہے، وہاں ٹھہرا ہوا پانی، سیلاب کی تباہ
کاریاں، خراب سڑکیں، منہدم مکانات اور زمیں بوس دیواریں نظر آتی ہیں۔ راتوں رات
اپنی ساری دولت، مکانات اور چھت سے محروم ہونے والے بلوچستان کے ہزاروں باسی آج بے
سر و سامان دیگر افراد کے منتظر ہیں کہ ان کی امداد کو آئیں۔ صوبہ بلوچستان نے اس
بارش کی وجہ سے پستی کا سفر طے کیا اور اب کئی صدیاں پہلے والے دور میں چلا گیا
ہے۔
بلوچستان کا ملک کے دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوئے 4 روز ہی
گزرے ہیں، اور صوبے میں ہر طرف بحران کا سماء ہے۔ صوبے میں گیس کی قلت پیدا ہو گئی
ہے۔ بعض اضلاع میں بجلی مکمل طور پر بند ہے، تو بعض علاقوں میں دن میں 2 گھنٹوں کے
لئے بجلی آتی ہے۔ کچھ یہی حال پی ٹی سی ایل کی سروسز، انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کا
بھی ہے۔ روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں دوگنی ہو چکی ہیں۔ تعلیمی ادارے بند
ہیں۔ صوبے کی عوام ایک پریشانی سے نکل نہیں پاتی کہ دوسری پریشانی ان کے دروازے پر
دستک دینے پہنچ جاتی ہے۔ بے بس عوام کو ان پریشانیوں سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ
صوبے میں حکومت کرنے والے تمام حکمرانوں سے سوال کرے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت
میں بلوچستان کی بہتری کے لئے کیا کیا۔
اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ بلوچستان کسی بھی اعتبار سے خود
کفیل صوبہ نہیں ہے۔ شکار پور سے آنے والی گیس پائپ لائن کو سیلاب سے نقصان پہنچا
تو صوبے میں گیس کی قلت پیدا ہو گئی۔ دوسرے ہی دن عوام کی بڑی تعداد ایل پی جی گیس
فروخت کرنے والوں کی دکانوں پر پہنچ گئی۔ ضرورت کے وقت ضروری اشیاء کی قیمتیں
بڑھانے کے غیر اخلاقی عمل میں بے حس تاجر کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ جونہی انہیں
اندازہ ہو جائے کہ عوام مجبور ہیں، ان کی تربیت اور احساس کا پول کھل جاتا ہے۔
ایل پی جی گیس کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ راتوں رات گیس کی قیمتیں
نہ صرف دوگنی ہو گئیں، بلکہ گیس ہی ناپید ہو گئی۔ انتظامیہ پر بھی آج کل بوجھ
زیادہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے اہلکار ایک طرف سیلاب متاثرین کی داد رسی کو پہنچنے کی
کوشش کرتے ہیں، دوسری طرف احتجاجوں سے نمٹتے ہیں اور کچھ فرصت ملے تو دیگر مسائل
کی سمت دیکھتے ہیں۔ انتظامیہ نے گیس کی ناجائز قیمتیں وصول کرنے والوں اور ذخیرہ
کرنے والوں کے خلاف کچھ دیر سے ہی سہی، مگر اقدامات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔
گزشتہ 4 دنوں میں ظاہراً تو بلوچستان کا ملک کے دیگر صوبوں سے صرف
زمینی رابطہ منقطع ہوا ہے، مگر حقیقت میں بلوچستان کا رابطہ تقریباً ہر اعتبار سے
کٹ چکا ہے۔ آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ، موبائل اور بجلی بھی بنیادی ضروریات کا
حصہ بن چکے ہیں۔ ایسے میں بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات، بجلی کی سہولت اور
موبائل سروسز کی سہولت فقط چند گھنٹوں کے لئے مہیا کی جا رہی ہیں۔ بجلی نہ ہونے کے
باعث زندگی کا پہیہ جام تو نہیں، البتہ بے حد سست روی کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ بھی
قدرت کا کمال ہے کہ لوگ گیس کی قطاروں میں کھڑے رہنے اور گیس کے حصول میں اتنا
مصروف رہتے ہیں کہ انہیں بجلی نہ ہونے کا گلہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ اسی
طرح موبائل سگنلز اور انٹرنیٹ کبھی ہے، تو کبھی نہیں۔
زمینی رابطہ منقطع ہونے کی خبروں نے پھل اور سبزی کے بڑے تاجروں کو
بھی عید کا چاند دکھا دیا ہے۔ انہیں بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ عوام کے پاس ہمارا
سامان خریدنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ سبزی فروشوں کو مہنگے دام سبزی
اور پھل فروخت کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مجموعی طور پر کھانے کی اشیاء کی قیمتیں
بھی تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ اب بلوچستان کے دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ کی
بحالی اور دیگر صوبوں سے بلوچستان میں مختلف اشیاء کی درآمدات تک اشیائے ضروریات
کے مہنگے ہونے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ بلوچستان کے اندر موجود زمینیں اکثر وہاں
کے سرداروں کی عزت کی علامت ہوتی ہیں، مگر انہیں بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
زمینوں کا استعمال سرداروں کی عزت بڑھانے کی بجائے کاشت کاری کے لئے بھی کیا جا
سکتا ہے۔ جو ضرورت کے وقت صوبے اور اپنے لوگوں کے کام آ سکتی ہیں۔
یہ ساری داستان سنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے
کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے ماضی میں کبھی صوبے کو خود کفیل اور خود مختار بنانے
کے لئے اقدامات اٹھائے ہی نہیں ہیں۔ بلوچستان کے اندر وسائل تو موجود ہیں، مگر ان
وسائل سے فائدہ اٹھانے کی زحمت نہیں کی گئی ہے۔ پہلے تو بلوچستان کی عوام تعلیم
اچھی اور معیاری نہ ہونے کا رونا رو رہے تھے، اب 4 دن میں بلوچستان کی عوام کو
حقیقی طور پر اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے بغیر ان کی کیا حالت
ہو سکتی ہے۔ اب اگر چار دن میں یہ صورتحال ہے، تو ذرا سوچئے کہ اگر بلوچستان ملک
سے الگ ہوتا تو اس کی کیا حالت ہوتی۔
No comments:
Post a Comment