Today news

Thursday, September 1, 2022

حرم سے حرم تک، نجف تا کربلا (3)

توقیر کھرل

Thursday 01-9-2022

حسینیت کا سونامی حریت کے قبلہ کیجانب گامزن ہے
 
کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک اور پاکستانی موکب نظر آیا، پاکستانی پرچم لہراتے دیکھ کر محسوس ہوا جیسے پاکستان کا کوئی شہر آباد ہوگیا ہے، یہاں کچھ دیر آرام کیا۔ یہاں پر قیام کرنے والوں کی بڑی تعداد پاکستان سے تھی۔ دو نوجوان عالمی حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ "کیا راستے میں پولز دیکھے؟ اُن پر پاکستانی شہداء کا نام اور تصاویر آویزاں تھیں۔ دوسرے نے جواب دیا دیکھی تو ہیں شاید، وہ شیعہ شناخت پر پاکستان کے کسی شہر میں شہید ہوئے ہوں گے، اُس نے جواب دیا، ایسا نہیں ہے! اُن پر لکھا ہے: "یہ نوجوان مُلک شام میں سیدہ زینب کے روضہ کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔" دوسرے نے حیرت سے پوچھا کیا واقعی؟ کیا وہاں پاکستان سے بھی نوجوان تھے۔؟ کیا انہوں نے بھی حرم کا دفاع کیا۔؟ پہلے والے نے جواب میں بتایا، ہاں چند نوجوان بغیر لشکر بنائے اور کہے بغیر ہی وہاں گئے اور دیگر مجاہدین کے ساتھ مل کر سیدہ زینبؑ کے حرم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے۔

ایک اور نوجوان نے تائید کرتے ہوئے بتایا، میں نے بھی ایسا ہی سنا ہے، ایک شہید نے وصیت کی ہے، جب تک بی بی سیدہ فاطمہؑ کی قبر کو دوبارہ سے تعمیر نہیں کیا جاتا، میری قبر کو پختہ نہ کیا جائے، یہ ان کی اہل بیت سے سچی عقیدت کی ایک جھلک ہے۔ ہمیں بھی سیدہ ؑکے حرم کے دفاع کیلئے شام جانا چاہیئے، جواب سنتے ہی موکب میں سارے جوانوں نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا، خدا نے چاہا تو ضرور جائیں گے۔" میں نے پہلی بار سنا تھا کہ شام میں پاکستانی نوجوان شہید ہوئے ہیں، اے کاش ہم بھی جاتے اور سیدہؑ کے حرم کی حفاظت کرتے، اے کاش ہم بھی سیدہ ؑکے مولا عباسؑ کے بازو اور کفیل بنتے۔۔۔ ہم رہ گئے اور وہ ہم پر سبقت لے گئے۔۔گفتگو سُن کر موکب میں کچھ دیر آرام کیا اور پھر اس راہِ عشق پر روانہ ہوگئے۔

یہ موکب نہیں خیامِ حسینی ہیں
مجھے ایک ایسے موکب کی تلاش تھی، جہاں کسی اور دیس کے لوگوں سے ملاقات ہو جائے۔ ہر موکب کی الگ ثقافت، الگ رنگ ہے، یہ مواکب نہیں خیامِِ حسینی ہیں۔
 
میں چشمِ تصور میں دیکھتا ہوں: "موکب میں امام زماںؑ خود تشریف فرماہے ہیں، ہم اُن کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں، ہم سے مخاطب ہوتے ہیں، ہم امامؑ سے تجدیدِ عہد کرتے ہیں، ہم امامؑ سے وعدہ کرتے ہیں کہ کربلا سے اپنے گھروں کو لوٹنے پر بھی امام کی راہ پر عمل پیرا رہیں گے۔" یہ مواکب نہیں مرکزِ وعدہ گاہ ہے، جہاں دنیا بھر سے آنے والے مسافر حسینی رنگ میں ڈھل چکے ہیں۔ یہ نورانی مواکب ہیں، یہ نور ہمارے وجود کو ہدایت عطا کرتا ہے۔ ان مواکب سے ملنے والی غذا من و سلویٰ سے کم نہیں ہے، مگر ہم اپنی منزل کی طرف متوجہ رہے، کہیں ایسا نہ ہو یہ لذیذ کھانے ہمارے نفس کو اپنے اہداف سے ہٹا نہ دیں۔

 
ایک موکب میں نائجیریا کے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی، ہمیں قہوہ پیش کیا گیا، ایک نائجرین انگریزی میں بات کرسکتا تھا۔ اس نے بتایا "کروڑوں نائجرین شیعہ ہوچکے ہیں، حکومت ہم پر ظلم ڈھاتی ہے، ہمارے قائد اور سردار آقائے زکزکی کو سخت اذیتیں دی گئیں، ان کے بیٹوں کو شہید کیا، عزاداری پر پابندی لگی۔ ہم نے قربانیاں دی ہیں، لیکن راہِ حسینیت سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے، ذلت ہم سے دور ہے اور ہم استقامت کے ساتھ اس راہ پہ قائم ہیں۔" نائجرین زائرین کے حوصلے واقعی بلند تھے، وہ اپنے مسکراتے چہروں کے ساتھ رخصت کر رہے تھے۔ راستے میں ایک بڑا دستہ دیکھا، ہاتھوں میں حزب اللہ کے زرد رنگ کے پرچم، پیشانی لبیک یاحسین ؑکی سرخ پٹیوں سے سجی تھی، چند ایک بلیک جیکٹس میں ملبوس تھے، جس پہ بڑے حروف میں درج تھا: "ہم امام خمینی ؒکے بیٹے ہیں،(یعنی ہم لشکر خمینیؒ سے ہیں) یہ جوان عصرِ حاضر کی کربلا میں حُسین ِعصر کے مجاہدہیں، تین دہائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان قابلِ رشک جوانوں نے محض کربلا کے واقعات سن کر گریہ ہی نہیں کیا، بلکہ کربلائے لبنان میں اپنا لہو بھی پیش کیا۔ راہِ بہشت پر امامؑ سے اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔

موکبِ قرآنی اور اہلِ پاکستان کی خدمت
نجف سے کربلا مارچ کے راستہ پر ہزاروں مواکب ہیں، ہر موکب میں زائرین کیلئے بہترین سہولیات ہیں، آئیڈیل موکب وہی ہے، جس میں کھانے پینے اور استراحت کے علاوہ زائر کی روحانی اور فکری تربیت کیلئے مواد موجود ہو۔ سات ہزار مواکب میں اردو جاننے والوں کیلئے ایک موکبِ قرآنی بھی ہے۔ قرآنی ادارہ التنزیل کی جانب سے ڈاکٹر علی عباس نقوی نے موکب(386) قائم کیا ہوا تھا۔ یکم صفر سے ہی یہ موکب لگا دیا جاتا ہے۔ یہاں پاکستانی چائے نوش کی۔ خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد یہاں قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھی۔ ایک صفحہ قرآن کریم کا تلاوت کیا۔ شام کے اوقات میں یہاں عزاداری بھی ہوتی ہے۔ موکب سے گزرنے والا ہر زائر قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے بعد امام مہدی ؑ کو ہدیہ کرتے ہوئے سلامتی کی دعا کرتا تھا۔ تلاوت کے بعد زائرین قرآن مجید کے سایہ میں آگے بڑھ جاتے تھے۔

فاصلہ سمٹ رہا تھا، لیکن مواکب کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مجھے ایک موکب نظر آیا، جس کی اراضی پاکستانیوں نے خریدی ہے، تاکہ آئندہ سالوں میں یہاں پر مواکب تعمیر کئے جاسکیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ اہلِ پاکستان بھی اہلِ عراق کے سنگ زائرین کی خدمت کی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مواکب کیلئے اراضی خریدنے کے علاوہ ایک اور قدم 50 ہزار پودے لگانے کا بھی ہے۔ کراچی کے 85 سالہ محمدی دربار عراق کے مقدس اور زیارتی شہروں نجف اشرف اور کربلا معلیٰ کے درمیان 80 کلومیٹر کے راستے پر 50 ہزار درخت لگا رہے ہیں۔

کربلا کے راستے پر حُسینؑ ِعصر کیجانب
موکب سے موکب سفر جاری تھا، قدم قدم پر ہر نسل، قوم اور ہر ملک کے لوگ نظر آتے ہیں، ہاتھوں میں یاحسینؑ کا پرچم تھامے، کربلا کے راستے پر حُسینؑ عصر کی جانب جا رہے تھے۔ مجھے کچھ یمنی نظر آئے، مخصوص حلیہ سے پہچاننا آسان تھا۔ مسکراتے چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگایا، سلامتی کی دعائیں کیں، یہ کہتے ہوئے آگے چل دیا "شکریہ یاحسین آپ نے ہمیں یکجا کر دیا۔" لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ ایک منزل کی طرف جاتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کی عظیم اور تاریخی مثال کو دیکھ کر حضور نبی کریمﷺ کی ایک حدیث یاد آئی، جو آپﷺ نے امام مہدی ؑ کے ظہور کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے: "جب قائم کے ظہور کے بعد ایک شخص دوسرے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنی ضرورت پوری کرے گا اور دوسرا اسے روکے گا نہیں۔"

بلاشبہ راہِ بہشت میں ایسا عملی طور پر نظر آتا ہے۔ منتظرینِ امام زماں (عج) اس راستے کو مثالی اور الہیٰ معاشرے کی زندہ مثال قرار دیتے ہیں. بلاشبہ جب امام مہدی ؑظہور فرمائیں گے تو ایسی ہی حکومت قائم کریں گے، جیسے یہاں سب مرد و خواتین مل کر چل رہے ہیں، کسی کو کوئی خوف نہیں، کسی کا جھگڑا نہیں، سب دل و دماغ کی پاکیزگی کے ساتھ چلتے ہیں، ایسے ہی امام زماں کی عالمگیر حکومت ہوگی۔ یہ مشی، پیادہ روی، یہ لانگ واک، جھلک ہے امام زماںؑ کی عالمی حکومت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: