Today news

Saturday, August 27, 2022

کیا نواز شریف سیاسی طور سے مایوس ہوچکے ہیں؟

 سید مجاہد علی 

Saturday 27-8-2022

نواز شریف نے رات گئے ایک ٹویٹ میں شہباز شریف حکومت کے بارے میں اپنے تحفظات سے متعلق رپورٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ ’وزیر اعظم ملک کو مشکل حالات سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ ۔ اگرچہ ٹویٹ میں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ وضاحت کس خبر کے حوالے سے دی جا رہی ہے لیکن اس سے تھوڑی دیر پہلے صحافی سہیل وڑائچ نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا تھا کہ نواز شریف وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی کارکردگی اور شہباز شریف کے بیانیہ سے مطمئن نہیں ہیں۔

سہیل وڑائچ نے حال ہی میں لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اسی ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ٹی وی پروگرام کے میزبان کو بتایا تھا کہ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اسحاق ڈار ہی ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل پر نکتہ چینی مسلم لیگ (ن) کے دیگر لیڈروں کی طرف سے بھی سامنے آتی رہی ہے جو قیمتوں میں اضافہ کی ساری ذمہ داری مفتاح اسماعیل پر ڈال کر عوام میں پارٹی کی عدم مقبولیت کو سہارا دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کل فیصل آباد میں مسلم لیگی لیڈر عابد شیر علی نے وزیر خزانہ پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے نواز شریف سے اپیل کی تھی کہ وہ مداخلت کریں اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس کروائیں۔ اس سے پہلے مریم نواز بھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اعلان کرتی رہی ہیں کہ نواز شریف ایسے عوام دشمن فیصلوں کے حامی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے لئے بہتر ہو گا کہ وہ ایسے تباہ کن فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے انتخابات میں عوام کے پاس جائیں۔

تاہم مشکل معاشی فیصلوں کی بجائے انتخابات کا راستہ اختیار کرنے کا مرحلہ بھی اب بیت چکا ہے۔ کیوں کہ ایک تو شہباز شریف کسی بھی قیمت پر اگلے سال سے پہلے انتخابات کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے نواز شریف ملک سے باہر رہتے ہوئے ملکی سیاست پر اپنا اثر دن بہ دن کھوتے جا رہے ہیں۔ یہ خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ متعدد مسلم لیگی لیڈر یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر فیصلے نہ کریں بلکہ ملک واپس آئیں اور حقیقی سیاسی صورت حال کا سامنا کریں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہی کہی جا سکتی ہے کہ چند ماہ پہلے تک تحریک انصاف کے بارے میں یہ اعلان کرنے والی پارٹی کہ اسے آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دینے کے لئے امید وار نہیں ملیں گے، اب خود اسی صورت حال کا سامنا کر رہی ہے۔ عابد شیر علی نے تو گزشتہ روز صاف الفاظ میں کہا ہے کہ مفتاح اسماعیل کی نگرانی میں جو مالی و معاشی اقدامات کے جا رہے ہیں، ان کے منفی اثرات کی وجہ سے ہم اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے۔

اس سے پہلے پنجاب کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کو شرمناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تحریک انصاف 20 میں سے 15 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی بجائے پرویز الہیٰ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اب وہ وفاقی حکومت کے لئے براہ راست مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس پر مستزاد مشکل اور عوام پر براہ راست مالی بوجھ ڈالنے والے فیصلے خاص طور سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ عمران خان میدان میں ہیں اور اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ایک کے بعد دوسرا مقبول نعرہ ایجاد کر کے پاکستانی لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی اکثریت تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو تسلیم کرتی ہے اور ضمنی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی بھی اس کا دو ٹوک ثبوت فراہم کر رہی ہے۔ آئندہ ماہ کے دوران قومی اسمبلی کی متعدد نشستوں پر انتخاب ہونے والا ہے جن میں سے بیشتر نشستوں پر عمران خان خود امید وار ہیں۔ اس فیصلہ کا یہی مقصد ہے کہ عمران خان ان تمام نشستوں پر تحریک انصاف کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

تمام 9 نشستوں پر بنفس نفیس انتخاب میں حصہ لینے کا مطلب ہے کہ عمران خان ان تمام حلقوں میں تحریک انصاف کو کامیاب کروانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ انتخاب جیت کر انہیں تمام نشستوں سے مستعفی ہونا پڑے گا تاکہ ایک بار پھر ضمنی انتخاب کا راستہ اختیار کیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود یہ نشستیں جیت کر عمران خان یہ سیاسی جؤا کھیل رہے ہیں کہ اگر وہ تمام نشستیں جیت جاتے ہیں تو وہ اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت فراہم کرسکیں گے کہ تحریک انصاف ہی اس وقت عوام کی پسندیدہ پارٹی ہے اور وہ کسی دوسرے آپشن کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ عمران خان اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سے اعلان کرتے رہے ہیں کہ اس بار انہیں قومی اسمبلی میں اکثریت ہی نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت چاہیے۔ اسی کے ساتھ ان کے حامی مسلسل یہ پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کو پاکستانی عوام میں 80 سے 90 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ ان دعووں کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے لیکن اس قسم کی پروپیگنڈا مہم جوئی اور تحریک انصاف کی مقبولیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے دوسری پارٹیوں کے ناراض، بے یقینی کا شکار اور فیصلہ نہ کر سکنے والے ووٹروں کو متاثر کیا جاسکتا ہے جس کا پولنگ میں کسی بھی پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

عمران خان اگر آئندہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخاب میں تمام 9 یا بیشتر نشستوں پر کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت کے لئے نئے انتخابات سے انکار کا کوئی ٹھوس عذر باقی نہیں رہے گا۔ حکومت معیشت کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے مشکل فیصلے کرنے کے نام پر اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے۔ شہباز شریف کا خیال ہے کہ اگر انہیں ایک سال کی مدت مل جاتی ہے تو وہ آئی ایم ایف کے علاوہ دوست ملکوں سے قرض مانگ کر آئندہ انتخابات سے پہلے اپنے حلقہ اثر میں کچھ ایسے منصوبے شروع کرسکیں گے جن سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال مسلسل بے یقینی کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے اور چند ارب ڈالر مل جانے کے باوجود، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ چند ماہ میں حالات میں کوئی ایسی قابل ذکر تبدیلی آ سکتی ہے جس سے عوام کو یقین دلایا جا سکے کہ شہباز حکومت نے وقتی طور سے مشکل فیصلے کیے تھے لیکن اب وہ سہولت دینے کی پوزیشن میں ہے۔ شہباز شریف کو یوں بھی ایک بہتر منتظم کی شہرت تو حاصل رہی ہے لیکن وہ ساری زندگی سیاست میں گزارنے کے باوجود عوامی حساسیات کو سمجھنے اور ان کے مطابق رد عمل دینے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ یہ کام نواز شریف کرتے رہے ہیں۔

اب نواز شریف کو ایک طرف نا اہلی کا سامنا ہے دوسرے وہ جیل جانے کے خوف سے اس وقت تک پاکستان واپس آنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے جب تک انہیں عدالتوں سے کوئی ریلیف نہ مل جائے اور وہ جیل کی بجائے اپنی پر آسائش رہائش گاہ میں جا سکیں۔ سہیل وڑائچ نے نواز شریف کے ساتھ بات چیت کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسی طرف اشارہ کیا ہے اور عدلیہ کو نواز شریف کا یہ شکوہ پہنچایا ہے کہ بعض لوگوں کے لئے تو رات گئے اور چھٹی والے دن بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں لیکن ان کے مقدموں پر فیصلے مسلسل تعطل کا شکار ہیں۔

سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ نواز شریف کی آئندہ حکمت عملی میں عدلیہ کو نشانہ بنانا شامل ہو گا۔ سہیل وڑائچ کی فراہم کردہ معلومات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ نواز شریف عدالتوں سے ریلیف ملنے تک واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب انہیں بظاہر اسٹبلشمنٹ سے کوئی شکوہ نہیں ہے کیوں کہ وہ عمران خان کی حمایت سے تائب ہو چکی ہے۔ تاہم نواز شریف تحریک انصاف کے ساتھ اس وقت تک کوئی مکالمہ کرنا نہیں چاہتے جب تک عمران خان کیفر کردار تک نہ پہنچ جائے۔ وہ اسے ’فاشسٹ‘ سمجھتے ہیں اور سہیل وڑائچ کے بقول ’نواز شریف کہتے ہیں کہ ان کا راستہ روکنا بہت ضروری ہے۔ جمہوری معاملات بعد میں طے ہوتے رہیں گے‘ ۔ اگر نواز شریف سے منسوب کیے گئے یہ خیالات درست ہیں تو اسے ایک جلاوطن لیڈر کی شدید مایوسی کے علاوہ پاکستان کے معروضی حالات سے لاتعلقی سمجھنا چاہیے۔ نواز شریف کل تک ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگاتے تھے اور اب وہ ووٹ کے ذریعے عمران خان کی سیاست کا سامنا کرنے سے انکار کر رہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کی مدد سے عمران خان کا راستہ روکا جائے۔

یہ طرز عمل غیر جمہوری اور غیر سیاسی ہے۔ کیا یہ یقین کر لیا جائے کہ نواز شریف اب اس حد تک مایوس اور خوف زدہ ہوچکے ہیں کہ وہ عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور کسی بھی قیمت پر انہیں کسی انتظامی یا عدالتی طریقے سے راستے سے ہٹا کر اپنے لئے راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ نواز شریف سے منسوب کی جانے والی یہ باتیں درست نہ ہوں لیکن نواز شریف کے ٹویٹ میں صرف شہباز شریف کے بارے میں خدشات کی تردید کی گئی ہے۔ جمہوریت، عمران خان اور تحریک انصاف کے بارے میں ان کے ارادوں کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ جمہوریت ایک ایسے انتظام کا نام ہے جس میں کوئی لاڈلا نہیں ہوتا بلکہ عوام جسے بھی ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجیں، ان کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان سے بھی یہی اختلاف کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو عوام منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، انہیں مناسب احترام دیا جائے اور صرف اسی ووٹ کو درست نہ مانا جائے جو تحریک انصاف کو ڈالے جاتے ہیں۔ اسی طرح اب اگر نواز شریف جمہوری سفر میں ایک مقبول لیڈر کو مسترد کر کے راستے سے ہٹانے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں تو اسے شکست خوردگی ہی کہا جائے گا۔

عمران خان نے اگر کوئی قانون شکنی کی ہے تو انہیں ضرور اس کی سزا ملنی چاہیے۔ جیسے نواز شریف کو میرٹ کی بنیاد پر عدالتوں سے انصاف ملنا چاہیے اور طاقت کے زور پر نا اہل قرار دلوا کر یا سیاست سے باہر رکھنے کے طریقے کو مسترد کرنا ضروری ہے خواہ وہ ملکی سپریم کورٹ کے ذریعے ہی نافذ کیا گیا ہو۔ اب اگر نواز شریف بھی انہی ہتھکنڈوں سے عمران خان کو میدان سے ہٹانا چاہتے جن کے ذریعے انہیں اقتدار اور سیاسی حقوق سے محروم کیا گیا تھا تو یہ ترقی معکوس کی نادر روزگار مثال ہوگی۔ آمریت کی سرپرستی سے میثاق جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی تک کی جد و جہد کرنے والے کسی لیڈر کا یہ سیاسی سفر قابل رشک نہیں ہو گا بلکہ عبرت کی مثال بن جائے گا۔ نواز شریف کو اس حوالے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا فوری تدارک کرنا چاہیے۔

 

No comments: