Today news

Saturday, August 27, 2022

بلوچستان میں سیلاب کی تباہی کی وجوہات

 اعجاز علی

Saturday 27-8-2022

جون سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں نے بلوچستان کا پورا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی سیر کی جائے تو جگہ جگہ پر حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات نظر آنے لگتے ہیں۔ کہیں پر سڑکیں خستہ حال ہوگئی ہیں، کہیں پر عمارتیں منہدم ہوگئی ہیں، کہیں پر درخت گر گئے ہیں تو کہیں پر دیواریں جا گری ہیں۔ ساتھ ساتھ بارش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بارش کی شدت میں ذرا اضافہ ہوتا ہے تو پورے شہر میں پانی بھر جاتا ہے۔ بڑے نالوں سے پانی نکاسی کی بجائے سڑکوں پر آجاتا ہے اور مزید پریشانی کھڑی کر دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں انتظامیہ اس لئے بھی بے بس ہوکر رہ گئی ہے کہ عام دنوں میں ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے تیاری نہیں کی گئی تھی، اگر چند ذمہ داریاں وقت پر پوری ہو جاتیں تو کم از کم انتظامیہ کو کوئٹہ میں ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

حکومت اور انتظامیہ نہ ہی بارشوں کے اس سلسلہ کی توقع کر رہی تھی اور نہ حکمرانوں کو اندازہ تھا کہ یہ بارشیں صوبے کو اس قدر نقصان پہنچائیں گی۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تمام اداروں کی موجودگی کے باوجود عوام کو بارشوں کے نقصانات سے نہیں بچایا جا سکا، اندرون بلوچستان میں لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا اور بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کو روکنا تو دور کی بات ہے۔ شہر میں صفائی اور دیگر انتظامات کی ذمہ داری سنبھالنے والی لوکل گورنمنٹ کی کارکردگی سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ناکام قرار دینا بھی زیادتی ہوگی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں غفلت برتی گئی، جس کی وجہ سے شہر کا یہ حال ہوا۔

کوئٹہ میں جو سیلابی صورتحال پیدا ہوئی، اس کی پہلی اور اہم وجہ غیر قانونی تجاوزات ہیں۔ شہر میں پانی کی نکاسی کا نظام تشکیل تو دے دیا گیا تھا، مگر حکومت اور انتظامیہ نے اس نظام کا خیال رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ شہر بے پرسان میں لوگوں کو جہاں جگہ ملی، وہاں پر انہوں نے اپنی دکان اور عمارت بنا لی۔ آپ شہر کا دورہ کریں تو پورے شہر میں جگہ جگہ پر آپ کو لوگوں کی عمارتوں کا ایک حصہ نالوں کے اوپر بنا ہوا دکھائی دے گا۔ لوگوں نے بڑے نالوں پر آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا ہے۔ یہ نالے پانی کی نکاسی کیلئے تعمیر کئے گئے تھے، گذشتہ چند سالوں میں بارشیں کم ہوئیں، تو لوگوں نے ملک کی ان سرکاری زمینوں کو اپنی ذاتی زمینوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ اب کی بار جب بارش ہوئی تو وہ پانی جسے ان نالوں کے ذریعے شہر سے باہر نکلنا تھا، وہ سڑکوں پر آگیا۔

تباہی کی دوسری وجہ کرپشن اور ناقص تعمیرات ہیں۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں ٹوٹنے والے ڈیمز کے حوالے سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ زیادہ پانی جمع ہونے سے یہ ڈیمز ٹوٹ گئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ڈیم پانی نہیں سنبھال سکتا، تو اسے پانی کیلئے کیوں بنایا گیا تھا؟ اگر ان ڈیمز کی تعمیر کیلئے جاری شدہ فنڈ کو مختلف محکموں اور وزیروں کی جیبوں کی بجائے ڈیم پر خرچ کیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ سڑکوں کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ شہر کے بعض علاقوں میں وہ سڑکیں بھی خراب ہو گئی ہیں، جنہیں چند مہینے قبل ہی بنایا کیا گیا تھا۔ ان سڑکوں کی تعمیر میں ناقص میٹیرئل کی وجہ سے ہی خستہ حالی ان کا مقدر بن گئی ہے۔

سیلابی تباہی کی تیسری وجہ بے حد عجیب ہے۔ ممکن ہے کہ پورے ملک میں صورتحال یکسر مختلف ہو، مگر بلوچستان کی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیلابی ریلوں کی دوسری وجہ وہ ڈیمز اور چھوٹے بند تھے، جنہیں پانی اسٹور کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ پورے صوبے میں تاحال 21 ڈیمز ٹوٹنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف بند میں زیادہ پانی بھرنے کی وجہ سے پانی اوور فلو ہوکر آباد علاقوں کی طرف آیا، جو تباہی کا باعث بنا۔ اس بات کی بہتر تشریح ماہر آبی امور ڈاکٹر حسن عباس نے اپنے ایک انٹرویو میں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیم سیلاب سے نمٹنے کا حل نہیں ہے۔ ڈیم بنانے والے ہمیشہ یہ بات کرتے ہیں کہ ڈیمز سیلاب کو روکے گا، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے، ڈیمز سیلاب کو روک ہی نہیں سکتا ہے۔
 
ڈاکٹر حسن کہتے ہیں کہ کسی بھی علاقہ میں بننے والا ڈیم وہاں پر بارش سے پیدا ہونے والے چھوٹے سیلابی ریلوں کو روکتا ہے اور ایک بڑے سیلابی ریلے کو زیادہ تباہی کے ساتھ عوام کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بند نہ ہو، تو ہر بارش کے موقع پر لوگوں کیلئے چھوٹے چھوٹے سیلابی ریلے آئیں گے۔ جس سے وہ تیار ہوتے جائیں گے کہ یہاں پر بڑے سیلاب کا بھی خطرہ ہے۔ بصورت دیگر لوگ ڈیم کی وجہ سے بے فکر ہوتے ہیں کہ یہاں پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جب زیادہ بارش کے باعث ڈیمز ٹوٹ جاتے ہیں، یا واٹر اوور فلو کی وجہ سے پانی آجاتا ہے تو وہ بڑی مقدار میں لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ چھوٹے ڈیمز اور بند پانی کے ذخیرے کیلئے تو کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں، مگر انہیں سیلاب کا حل سمجھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ اول تو موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور مشینری کو بروئے کار لا کر صوبے کی عوام کی قیمتی جانوں کو بچائے۔ بلوچستان میں روزمرہ کی بنیاد پر بڑھنے والی اموات کی تعداد پر قابو پانا انتظامیہ کی اہم ترین اور اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ جیسے ہی اس صورتحال سے نکل کر انتظامیہ کو فرصت ملے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کرنا چاہیئے۔ ان تمام عمارتوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرنی چاہیئے، جن کی وجہ سے نکاسی آب کا سارا نظام درہم برہم ہوا، متعدد افراد بے گھر ہوئے اور جان کی بازی تک ہار گئے۔ حکومت کو آئندہ بھی ان پر قابو پانے کیلئے کوئی موثر نظام بنانا چاہیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت ان تمام علاقوں کا دورہ کرے، جہاں جہاں تباہی ہوئی ہے اور ان تباہ کاریوں کی وجوہات کا بغور جائزہ لے کر مستقبل میں ان سے نمٹنے کیلئے تیاری کرے۔

 

No comments: