ایم سید
وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ سیلاب کی تباہی سے کچھ حفاظتی
بندوں پر دباؤ ہے جو بڑے دیہات اور شہروں کیلئے باعث خطرہ ہیں لیکن انکے تحفظ
کیلئے ریلیف کٹ دینے کا فیصلہ وزیر آبپاشی کے تحت ماہر آبپاشی کو دیا گیا ہے۔
وزیراعلی نے صحافیوں کو بتایا گیا کہ سیلاب سے صوبے میں 30 لاکھ مکان تباہ ہوئے،
کسی جگہ کوئی کچا مکان نہیں بچا، پکے مکان بھی رہنے کے قابل نہیں رہے۔ انہوں نے یہ
بات آج وزیراعلی ہاس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعلی سندھ نے کہا
کہ سندھ میں سیلاب کی شدت بہت زیادہ ہے، 2010ء کے بعد یہ سب سے بڑا سیلاب ہے،
گزشتہ 12 سے 13 روز میں 27 اضلاع کی حقیقت دیکھی، ابھی جیک آباد، گھوٹکی اور کشمور
میں نہیں گیا۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ میں سندھ میں ہر جگہ گیا ہوں لیکن پیش ایسا
کیا جا رہا ہے جیسے ہم نے سب کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔
سندھ میں سیلاب سے ہونیوالی اموات کے بارے میں بتاتے ہوئے وزیراعلی
سندھ نے کہا کہ سیلاب میں 470 افراد جاں بحق اور 8314 زخمی ہیں جبکہ 30 لاکھ سے
زیادہ کچے مکانات تھے جو اب نہیں بچے، اگر کوئی مکان گرا نہیں ہے تو وہ رہنے کے
قابل نہیں رہا، پکے مکانات بھی کئی جگہوں پر ایسے ہیں جو رہنے کے قابل نہیں، ڈیڑھ
کروڑ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 10 مئی کو محکمہ موسمیات نے معمول سے
زیادہ بارشیں ہونے کی پیشگوئی کی، اتنے وسائل نہیں تھے کہ زیادہ بارش کی تیاری کی
جاتی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے متعدد علاقوں میں 700 سے 1100 ملی میٹر بارش ہوئی،
جو نارمل نہیں ہے، 16 اگست کے بعد جو بارش ہوئی اس نے سندھ میں بہت بڑی تباہی
مچادی ہے، سیلاب متاثرین کو بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت امدادی رقوم دی جارہی ہیں۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کہیں کوئی کٹ لگانا ہو یا پانی نکالنا ہوگا اس کا فیصلہ
محکمہ آبپاشی کرے گا، سب سے درخواست کرتا ہوں صبر سے کام لیں، پانی قدرتی گزر
گاہوں سے سمندر تک جائے گا۔
وزیراعلی نے کہا کہ ہر وزیر اپنے اپنے ضلع میں گیا ہے، کوئی ایک کونا
نہیں سندھ میں جہاں ہمارا منتخب نمائندہ نہیں پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ جو اپنے گھر
سے نکلے گا اس کی کیا کیفیت ہوگی اسی لئے لوگوں نے غصے کا اظہار کیا لیکن ناجائز
کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا نے دکھانا شروع کیا تب لوگوں کو احساس ہوا کہ حالات
واقعی خراب ہیں۔ وزیراعلی نے کہا کہ جس قسم کی صورتحال ہے میڈیا چینل اب تک وہ
نہیں دکھا رہے، میڈیا کو بہت زیادہ درخواست کی تھی تب جاکر کچھ انہوں نے دکھانا
شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ پورا سندھ دریا بنا ہوا ہے، ہر شہر میں دریا کی صورتحال
ہے، کئی مقامات پر میری گاڑی روکی گئی لیکن ہم نے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا، جتنا
بڑا نقصان ہوا اس میں ہمارے پاس جو سامان تھا ختم ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اگست میں
معمول سے 700 گنا زیادہ بارش ہوئی، این ڈی ایم اے نے سندھ حکومت کو صرف 8 ہزار
ٹینٹ دیئے، ایک لاکھ 10 ہزار ٹینٹ سندھ حکومت تقسیم کرچکی ہے، ہم نے مزید 3 لاکھ
ٹینٹ کا آرڈر دیا ہے، اسٹاک میں موجود 20 ہزار ترپال تقسیم کرچکے اور 30 لاکھ مچھر
دانیوں کی ضرورت ہے، انشا اللہ مچھر دانیوں کی تعداد پوری ہوجائے گی، سیلاب
متاثرین کی مدد کیلئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
سندھ بھر میں سیلاب کے باعث تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ کی
صورتحال سے متعلق رپورٹ کے مطابق تعلقہ وار پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہر اور
سپریو بند میں شگاف سے پانی کو دمراہ کے راستے وارہ کی طرف موڑ دیا ہے۔ محکمہ
آبپاشی نے شہر میں الرٹ جاری کردیا ہے۔ اس وقت نصیر آباد شہر محفوظ ہے، قبو سعید
خان شہر بھی محفوظ ہے جہاں پانی کی سطح نیچے ہے اور مزید کم ہورہی ہے۔ شہری علاقے
صاف ہیں جبکہ دیہی علاقے زیر آب ہیں اور کوئی خطرہ کی بات نہیں۔ رپورٹ میں بتایا
گیا ہے کہ سکھر شہر کے 80 فیصد شہری علاقوں کو بارش کے پانی سے صاف کردیا گیا ہے
اور بقیہ کو دو دن میں مزید صاف کردیا جائے گا، امید ہے کہ 40 پمپنگ مشینیں دن رات
کام کرتی رہیں تو مزید بہتری آئے گی۔ سکھر شہر کے بند محفوظ ہیں جبکہ تعلقہ کی
جانب سے کسی خطرے کی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ سکھر شہر کی سرکاری عمارتوں میں 151
کیمپس قائم ہیں، جہاں 12000 متاثرین کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سعید آباد مکمل طور پر زیر آب ہے جس کی چار یونین کونسلز میں اب
بھی سیلاب کا پانی کھڑا ہے۔
دادو کے شہری علاقوں کو سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں ہے، تاہم دیہی علاقے
80 فیصد ڈوب چکے ہیں اور نکاسی کی کوشش جاری ہے۔ خیرپورناتھن شاہ 85 فیصد زیر آب
ہے اور 15 فیصد محفوظ ہے۔ میہڑ کے RD-95 میں شگاف
لگنے سے میہڑ سے سپریو بند کی جانب پانی جارہا ہے، اس وقت دادو شہر کو کوئی
خطرہ نہیں کیونکہ MNV ڈرین کے
بائیں پشتے کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے جہاں مشینری
دستیاب ہے۔ ایم این وی ڈرین میں پانی کی سطح ہمل جھیل سے تقریبا ایک فٹ نیچے
ہے۔ جوہی شہر کو بھی رنگ ڈائک کے ذریعے محفوظ بنایا جا رہا ہے جس کی مسلسل نگرانی
کی جا رہی ہے، مقامی لوگوں، مزدور اور انتظامیہ 24 گھنٹے ضلعی انتظامیہ کی فراہم
کردہ مشینری کے ذریعے دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ شہر کے دیہی علاقہ 90 فیصد سیلاب کی
زد میں ہے۔ خیرپور ناتھن شاہ شہر ڈوب گیا ہے، شہر کا تقریبا 85 فیصد حصہ سوائے چند
محلوں کے پانی میں ہے، دیہی علاقہ مکمل طور پر زیر آب ہے، آرمی، نیوی اور ایدھی کے
ساتھ ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ مہر ٹاؤن کا بھی ایک رنگ ڈائک سے دفاع کیا جا رہا ہے
اگرچہ پانی کا دباؤ مسلسل اور خطرناک ہے لیکن مقامی لوگ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے
فراہم کردہ مشینری کے ساتھ شہر کو سیلاب سے بچانے کیلئے نگرانی اور گشت کر رہے
ہیں۔
دھامراہ واہ میں RD 95 میں ایک
مبینہ شگاف کی وجہ سے سپریو ڈائک کے ساتھ پانی کی سطح بڑھ سکتی ہے جیسا کہ XEN رائس کینال دادو ڈویژن کی طرف سے اطلاع دی گئی ہے کہ بہاؤ کم ہے اور
پانی واپس سپریو میں بہہ جائے گا تو اس کی سطح بلند ہو جائے گی۔ شہر کے دیہی
علاقے 90 فیصد سیلاب کی زد میں ہیں۔ اس موقع پر ریسکیو ریلیف آپریشنز جاری ہیں اور
انہیں پاکستان آرمی اور پاکستان نیوی کی مدد حاصل ہے۔ لاڑکانہ میں بھی بارش کے بعد
شہر کی صورتحال اس طرح ہے کہ اسکا 90 فیصد علاقہ صاف ہے، صرف نشیبی علاقوں میں
پانی باقی ہے۔ رتوڈیرو شہر 85 فیصد، نوڈیرو شہر 95 فیصد، ڈوکری شہر 90 فیصد، باڈہ
شہر 90 فیصد، اریجا شہر 85 فیصد، گیریلو شہر 95 فیصد جبکہ دیہی علاقے 80 فیصد صاف
ہیں۔ سانگھڑ میں مون سون کے سپیل نے ضلع سانگھڑ کو بری طرح متاثر کیا ہے، 90 فیصد
فصلیں مکمل طور پر تباہ ہیں جہاں اب بھی پانی کھڑا ہے، تقریبا 35000 لوگ ریلیف
کیمپوں میں مقیم ہیں اور 3 لاکھ کی آبادی بے گھر ہوکر سڑک کنارے اور کھلے آسمان
تلے خیموں میں آباد ہے۔ شہر میں 17 افراد جاں بحق اور 15 زخمی ہوئے۔
شہید بینظیر آباد، دولت پور، قاضی احمد میں خیرپور اور نوشہرو فیروز
سے پانی کی آمد جاری ہے (دریائے سندھ کے ڈیک کے قریب) جس سے مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔
نواب شاہ شہر میں سڑکیں صاف ہیں، خیرپور میرس اور قاضی احمد میں روڈوں پر پانی
کھڑا ہے، اسے آبپاشی کے عملے کے ذریعے صاف کیا جا رہا ہے، دیہی علاقے تقریبا پوری
طرح ڈوب چکے ہیں۔ ضلع شہید بینظیرآباد کے شہری علاقوں میں بارش کے سیلاب کے بعد
مجموعی صورتحال اب معمول پر آگئی ہے، تاہم نوشہروفیروز کی جانب سے ایل بی او ڈی سم
نالہ پر مسلسل دباؤ کی وجہ سے ضلع شہید بینظیر آباد کے دیہی علاقے تاحال زیر آب
ہیں۔ میرپورخاص کے تعلقہ سندھڑی، ضلع سانگھڑ سے تعلقہ سانگھڑ اور کھپرو کے راستے
میں پانی تیزی سے چھوڑا جا رہا ہے جس سے پورے تعلقہ سندھڑی میں شدید سیلاب آ رہا
ہے۔ یہ 2020ء میں بھی ہوا اور مقامی لوگوں کی کافی مزاحمت کے بعد 8 کلومیٹر طویل
نالہ بنانا پڑا۔ تعلقہ کوٹ غلام محمد کی زرعی اراضی پر رکاوٹوں اور سم نالوں کی
ناقص ڈی سلٹنگ کی وجہ سے کوٹ غلام محمد کا 90 فیصد حصہ اب بھی زیر آب ہے۔
No comments:
Post a Comment