اعجاز علی
جون سے اگست تک جاری رہنے والی بارشوں کے سلسلہ نے بلوچستان کو جہاں
تباہی سے دوچار کردیا، وہیں تباہی کے بعد اس کے اثرات اور مشکلات میں خاصی کمی نظر
نہیں آئی ہے۔ بلوچستان کا ملک کے دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع کیا ہوا کہ
اشیاء کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچ گئیں۔ صوبے میں سبزی، آٹے اور خوراک کی دیگر
اشیاء کے ذخائر جن کے پاس تھے، انہوں نے دونوں ہاتھوں سے عوام سے پیسے بٹورنا شروع
کردیا اور محدود اشیاء کی موجودگی کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے مہنگائی میں اضافہ
ہوا۔ اس اضافے کے ساتھ ساتھ ان اشیاء کے بحران کا باقی رہنا بھی کسی مصیبت سے کم
نہیں ہے۔ انہیں میں سے ایک مصیبت آٹے کا بحران ہے، جس سے بلوچستان دوچار ہو گیا
ہے۔
سیلابی صورتحال کے بعد گیس بند ہوا تو روٹی کیلئے تندوروں پر رش بھی
اچانک بڑھ گیا اور ہمیشہ کی طرح نان بائی حضرات نے ڈیمانڈ زیادہ ہونے پر روٹیوں کی
قیمتوں کو دوگنا کردیا۔ 11 روز تک جب گیس نہیں تھی تب تک یہی سلسلہ جاری رہنے کی
توقع تھی، مگر گیس کی بحالی کے بعد بھی روٹیوں کی قیمتیں کم نہ ہوئیں۔ صوبائی
دارالحکومت کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ نے عوامی شکایات پر بعض تندوروں کا دورہ کیا
اور حکومت کی طے کردہ نرخ نامہ سے زائد قیمتوں میں روٹی فروخت کرنے والوں کے خلاف
کارروائیاں کیں۔ ان کارروائیوں کے بعد نان بائیوں کی تنظیم بھی آگے آئی اور حکومتی
نرخ نامے کو مسترد کرنے کا اعلان کردیا۔
نان بائیوں کی تنظیم تندور ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر نعیم خلجی نے
کوئٹہ پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے روٹی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ
کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جو نرخ نامہ حکومت کی جانب سے دیا گیا ہے وہ ناقابل قبول
ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے روٹیوں کی قیمتوں میں بھی
اضافہ کرنا چاہیئے۔ تندور ایسوسی ایشن نے پہلے تو بلوچستان میں ہڑتال کا اعلان کیا
تھا۔ تاہم بعد میں یہ ہڑتال کینسل کرتے ہوئے کہا گیا کہ انجمن تاجران بلوچستان کی
درخواست پر ہڑتال کا فیصلہ واپس لیا گیا۔ ایک طرف انکی نظر سے دیکھا جائے تو انکے
لئے بھی گھر چلانا مشکل ہوگیا ہے اور دوسری طرف عوام کے گھروں کا چولہا بھی بند
ہونے کے بے حد قریب ہے۔
آٹے کے اس بحران سے متعلق بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل فوڈ ظفر اللہ
کہتے ہیں کہ بارش اور سیلابی ریلوں کے بعد سڑکوں کی بندش بلوچستان میں آٹے کے
بحران اور قیمتوں میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبہ بلوچستان میں ہر
سال ایک کروڑ کے قریب گندم کی بوریاں پیدا ہوتی ہیں، جبکہ رواں سال گندم کی
پیداوار کم ہوئی تھی اور 70 لاکھ بوریاں پیدا ہوئیں۔ محکمہ خوراک بلوچستان ہر سال
10 لاکھ گندم کی بوریاں خریدتا تھا، مگر اس سال 3 لاکھ بوریاں خریدی گئیں۔ جو
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور پشین میں حکومت کی گوداموں میں موجود ہیں۔ انکا کہنا
ہے کہ ان بوریوں کو حالیہ بارشوں سے نقصان نہیں پہنچا ہے۔
ڈی جی فوڈ بلوچستان نے صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران آٹے کے بحران
کی تفصیلات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ عوام کو
مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ محکمہ خوراک کے پاس جو سرکاری گندم ہے اسے بلوچستان فلور
ملز تک پہنچانا شروع کردیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت جلد صوبائی دارالحکومت
کوئٹہ میں آٹے کا بحران ختم ہوجائے گا اور قیمتوں پر قابو پالیا جائے گا۔ انہوں نے
آٹے کی قلت کی ایک اور وجہ یہ بتائی کہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں شدید بارشوں
اور سیلاب کے باعث لوگوں کی اپنی ضروریات کیلئے ذخیرہ کی گئی گندم کو بھی نقصان
پہنچا جس کی وجہ سے آٹے کی طلب میں اضافہ ہوا۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ خوراک بلوچستان نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ
حکومت بلوچستان نے صوبے میں آٹے کی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے مزید گندم کی
خریداری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسکے لئے محکمہ خوراک نے پاسکو سے بھی رابطہ
کرلیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے آٹا لے آنے پر پابندی کے باعث
وہاں سے آٹا نہیں لایا جاسکا، تاہم محکمہ خوراک نے پنجاب حکومت سے بھی اس حوالے سے
رابطہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے تعاون سے آٹا اور گندم کے بحران پر تیزی سے قابو
پایا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب اور بارش کے باعث سڑکیں بند ہونے سے بھی
کوئٹہ شہر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ راستے کھولنے کے بعد آئندہ چند روز
میں صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
No comments:
Post a Comment