توقیر کھرل
Sunday 04-9-2022
نومبر کا دوسرا ہفتہ اور سال 2015ء تھا۔ پیادہ روی کا آخری دن ہے۔ امام حسین ؑکے چہلم میں صرف ایک روز باقی تھا۔ موکب سے موکب سفر ختم ہونے والا تھا، خون جما دینے والی سردی پیدل چلنے والوں کے جذبوں کو مات نہیں دے پا رہی تھی۔ روزانہ 20 کلومیٹر کا پیدل سفر کرنے کے باوجود نہ تو میرے پاﺅں میں چھالے پڑے، نہ جسم تھکا تھا۔ لبیک یاحُسین ؑکی صدائیں لہو کو گرما رہی تھیں۔ سفرِ عشقِ حُسین تیزی سے جاری ہے۔ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ کربلا کی منزل قریب تر ہو رہی تھی۔ مواکب سے آراستہ راہِ بہشت کے آخر میں ایک ثقافتی موکب میں دنیا بھر کے حریت رہنماﺅں کی تصویریں آویزاں تھیں، پاکستان سے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی تصویریں دیکھ کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو اُمڈ آئے تھے۔
اسی موکب کے باہر پول پر کچھ نورانی چہرے والے نوجوانوں کی تصویریں بھی آویزاں تھیں۔ یہ اسی راہ کے راہی تھے، مگر ان کی منزل کچھ اور تھی۔ وہ شام کے مسافر بنے اور مسافرہ شام کے روضہ کے محافظ بن گئے۔ خطِ مقاومت میں پاکستانیوں نے بھی اپنے حصہ کی شمع بھی جلائی ہے۔ ان کے لئے دنیا حقیر تھی، وہ مدافعانِ حرم تھے۔ اپنا مقام جنت میں دیکھ چکے تھے، جیسے شبِ عاشور امام حسینؑ نے اپنے جانثاروں کو بہشت میں ان کا مقام دکھایا تھا۔ مدافعان حرم بھی امام ؑ کے جانثاروں کی مانند بے مثل و بے نظیر تھے، وہ اگلی صفوں پر جا کر عصر حاضر کی کربلا کے یزیدوں سے نبر دآزما ہوئے تھے۔ پیدل چلنے والے مسافر، سوات کی وادیوں سے حلب کے میدانوں تک اولیاء کے فیضان پاکستان سے تعلق رکھنے والے شہداء سے خصوصی عقیدت کا اظہار کر رہے تھے۔
ایک پاکستانی زائر نے قاسم سلیمانی (شہید) کی تصویر کو بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ واللہ، امیر مختارؓ کے بعد قاسم سلیمانی میرے ہیرو ہیں، شام میں قاسم سلیمانی نے حرم کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی دفاع کیا ہے۔ کرد، عیسائی، شیعہ، سنی مسلمان قاسم سلیمانی کے ممنون نظر آتے ہیں، مدافعان حرم جان نہ دیتے تو کربلا کا واقعہ تکرار ہوتا۔
اے کاش! ہم بھی قاسم سلیمانی (شہید) کی ہمراہی میں مدافعینِ حرم بنتے۔
اے کاش! ہمارا بھی سر تن سے جدا ہو جاتا۔
اے کاش! حرم سیدہ زینب کا دفاع کرتے ہوئے مولا عباس علمدار کی طرح ہمارے بھی بازو قلم ہوتے۔
اے کاش! بی بی ہمیں بھی قبول کر لیتیں اور ہم بھی مدافع حرم بن جاتے۔
ہم اے کاش کہتے رہے، وہ ہم پر سبقت لے گئے، زندگی کا مقصد پاگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اربعین واک کو تا ابد زندہ رکھیں گے۔۔۔
ہم آخری موکب میں پہنچ چکے تھے، یہاں پیدل سفر کرنے والے کچھ دیر آرام کرتے ہیں، تاکہ اس روحانی سفر کے آخری لمحات کو محسوس کرسکیں۔ کچھ پاکستانی یہاں ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ میں انہیں انہماک سے سن رہا تھا۔ "جناب سلام، آپ کیسے ہیں؟ و علیکم السلام میں اچھا ہوں، زیارت قبول ہو، ان شاء اللہ۔ اچھا یہ بتایئے کہ پیادہ روی کیسی رہی ہے۔؟ بہت ہی عمدہ۔ میری زندگی کے بہترین دن یہاں گزر رہے ہیں، الحمد للہ۔۔ سردی ہو تو پھر بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم تو امام حسین ؑ کی خاطر آئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ ہم ان شاء اللہ اربعین واک کو تا ابد زندہ رکھیں، امام حسین ؑ ! اس وقت آپ ؑ اکیلے تھے، لیکن اب آپ اکیلے نہیں ہیں۔ جب پہلے گنبد پر نگاہ پڑے تو دعا کریں ہمارے مولا کؑا ظہور ہو جائے، خدا کی قسم! ان کا ساتھ دیں گے۔ دونوں کی دلچسپ گفتگو سننے کے بعد موکب میں کچھ دیر آرام کیا، نمازِ ظہرین ادا کرنے کے بعد پھر سے فاصلہ طے کرنے کیلئے چل پڑا۔
اگر وہ جانثاری نہ کرتے۔۔۔۔
مواکب کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا، اب چیک پوسٹوں سے گزر کر کربلا کی طرف داخل ہو رہے تھے۔ ہم اپنے اپنے ملکوں شہروں اور علاقوں سے نجف کے اس کربلائی راستے پر کتنی آسانی سے پہنچے تھے، ہماری مشکلات بہت کم تھیں، آسانی سے امام حسین کے زیارت کو کربلا پہنچ جاتے ہیں۔ تاریخ کی کتب شہداء کے خون سے سرخ ہیں، قدم قدم پر زائرینِ کربلا نے ماضی میں بے مثال قربانیاں دیں، وہ بھی تو مدافعانِ حرم تھے، اگر وہ سب جسم کے اعضاء کو کٹوا کر قربانیاں نہ دیتے تو آج کربلا کا راستہ اس قدر ہموار اور آسان نہ ہوتا۔ ایک وقت تھا کہ جب بنی عباس کے خلفاء نے یہ ٹھان لی تھی کہ امام حسین ؑکی قبر مطہر اور دیگر قبور کو مسمار کر دیا جائے، لیکن کچھ افراد نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ایسا نہیں ہونے دیا۔ خلفائے بنی عباس نے کہا کہ اگر زیارت کیلئے آئیں گے تو تمہارے ہاتھ کو کاٹ ڈالیں گے، تمہارے پاوں کاٹ ڈالیں گے، تمہیں مار ڈالیں گے، اس کے باوجود زائرین امام حسینؑ پہنچ گئے۔ اگر اس وقت کچھ لوگ جانثاری کا مظاہرہ نہ کرتے تو آج امام حسینؑ کی محبت دنیا میں اس طرح شان و شوکت اور بھرم کے ساتھ نہ پھیل سکتی۔
تھکن تو اگلے سفر کا بہانہ تھا۔۔
چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے حرم امام حسینؑ کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔ باب العلمؑ کے روضہ مبارک سے پیدل سفر ِعشق سید الشہداء کے روضہ کے سامنے ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہاں سے نئی منزل کا آغاز ہوتا ہے۔ مسافر کی تھکن اگلے سفر کا بہانہ بن جاتی ہے، عشق کے سفر میں مسافروں کی منزل کیا ہے اور یہ سفر کب ختم ہوگا؟ اس منزل کے راہیوں کے دل میں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، جس کی تلاش میں عشاق کی امام حسین علیہ السلام سے محبت پہلے سے بڑھ جاتی ہے اور تشنگی کے ساتھ عشق کے اگلے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سفر عشق و شعور کا سفر ہے۔ معرفت و عشق سے لبریز سفرِ شعور کی ابتدا ہوچکی ہے، عشاق کے قافلے قدم قدم اپنی منزل کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ہر لمحہ اپنے امام کے ظہور کے انتظار میں بے چین ہیں۔
نجف سے کربلا پیدل سفر کرنے والوں کی منزل امام مہدی (عج) کے ظہور سے منسوب ہوچکی ہے۔ نجف سے کربلا ایسی راہ گزر ہے، جہاں فاصلے ختم ہو جاتے ہیں، لیکن مسافروں کا سفر ختم نہیں ہوتا۔ راہیان کربلا ابھی سفر میں ہیں۔ دیدار اربعین کے ساتھ امام عصر کے ساتھ کیے ہوئے عہد تازہ ہو جاتے ہیں۔ یہ منزل آخری منزل نہیں ہے، بلکہ یہ تو ماجرے کا ایک نیا آغاز ہے اور یہ نظروں سے غائب امام کی مدد کا تجدید عہد ہے، ہمیشہ کی زندگی کے لیے، ایک دوسرے دیدار اربعین تک کے لیے۔ یہ جگہ مستضعفین جہان کی حکومت کا مرکز اور منتظران ظہور کے لیے قطب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس جگہ سے زیادہ عزت والی کونسی جگہ ہوگی، وہ جگہ جہاں امام عصر کے اجداد کے گھر میں داخل ہونے کا اذن ملتا ہے۔
حاضر ہیں یاحُسین ؑ۔۔۔
ہم کربلا پہنچ چکے تھے، حرم امام حُسین کا سنہری گنبد سامنے تھا۔ ہر عزادار زائرِ امام ؑ ہوچکا تھا، ہر زائر کی آنکھیں عزاداری کر رہی تھیں، زار و قطار سے گریہ جاری تھا، کوئی دونوں ہاتھوں کو بلند کئے لبیک یاحسین کہہ رہا تھا، کچھ عزادار ہاتھوں کو چہروں پر لا کر بلند آواز سے گریہ کناں تھے۔ سب امامؑ کے حضور پیش ہوگئے تھے۔ "اے امامؑ حاضر ہیں! اے امام!ؑ ہم تھک تو چکے ہیں، مگر آپ کے مصائب کو یاد کرتے ہیں، آپ کے مصائب کے سامنے یہ تین دن کی مسافت کچھ بھی نہیں۔ سیدہ زینبؑ کا سفرِ شام طویل تھا، اس میں کئی بازار، موڑ اور دربار تھے، چشمِ تصور میں لاتے ہیں تو اس سفر کی تھکاوٹ ہیچ نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment