Today news

Friday, September 2, 2022

حرم سے حرم تک، نجف تا کربلا (4)

توقیر کھرل

Friday 02-9-2022

مواکب میں کیا ہے؟


نجف سے کربلا کے درمیان 80 کلومیٹر کی مسافت میں داہنی طرف جگہ جگہ امام بارگاہیں یا سبیلیں نظر آتی ہیں، جنہیں عراق میں "موکب" کہا جاتا ہے۔ پورے راستے میں بہت کم خالی جگہیں نطر آتی ہیں کیونکہ امام حسینؑ کے عقیدت مندوں نے قدم قدم پر موکب بنائے ہوتے ہیں، جہاں پیدل چلنے والوں کی خدمت کی جاتی ہے۔ موکب کے باہر سٹال لگائے جاتے ہیں اور اس کے پیچھے استراحت کے لئے خیمہ بنایا جاتا ہے، جہاں زائرین آرام کرتے ہیں۔ ہر موکب میں خدمت کیلئے الگ الگ سہولیات ہوتی ہیں۔ کہیں میڈیکل کی سہولیات ہوتی ہیں تو کہیں جوتوں، کپڑوں، بیگ کی مرمت و سلائی کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ مواکب پر چائے، قہوہ، پانی اور ہمہ اقسام کی غذائیں دستیاب ہوتی ہیں۔ راہِ بہشت کے افلاکی سفر میں کھانے میں کوئی بھی چیز پیسوں کے عوض خریدنی نہیں پڑتی۔ جسے جتنا کھانا ہے، جب تک کھانا ہے، کوئی پابندی نہیں۔ نماز فجر سے قبل سردی کی شدت بڑھ جاتی تھی تو قہو ہ کی طلب بھی زیادہ ہو جاتی ہے، مواکب کے باہر حسینی ذائقہ چکھنے کیلئے ہمہ وقت پیدل چلنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔

ہر موکب پر چائے کی کیتلی سے دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ہر زائر خون جما دینے والی سردی میں گرما گرم چائے سے خود کو گرمائے رکھتا تھا۔ ایک کپ قہوہ نوش کرنے کے بعد پیدل چلنے والے چند کلومیٹر تک چستی اور تیزی سے سفر کرتے تھے۔ جس میں جتنی ہمت ہے، وہ اتنی استقامت کے ساتھ قدم بہ قدم چلے جا رہا تھا۔ سبز، سیاہ اور سرخ رنگ کے علم اٹھائے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ سٹرک کی داہنی طرف مواکب ہیں، کسی موکب سے زیارت عاشورہ کی آواز آرہی ہے تو کہیں سے عزا کی اذاں گونج رہی تھی۔ شاہراہ نجف کے بائیں طرف چلتی روڈ ہے۔ بزرگ مرد و خواتین میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو بسوں پر سوار ہو جاتے ہیں۔

چلتے چلتے ایک خدماتی موکب پر پہنچے، وہیل چئیر، جوتے اور موبائل ری پیئر ہو رہے تھے، کوئی ہدیہ نہیں لیا جا رہا تھا۔ میرے بیگ کی زپ خراب تھی، یہاں سے کچھ انتظار کے بعد بیگ کی مرمت کروائی۔ ہر عراقی میزبان اپنی تمام تر خدمات کے ساتھ پیشِ خدمت ہوتا ہے۔ کوئی اگر کھانا نہیں کھلا سکتا تو زائرین کے جوتوں کی سلائی کرتا ہے یا پالش کرتا تھا۔ ایرانی نوجوان بھی عراقیوں کے طور راہ چلتے زائرین کے قدموں میں بیٹھ کر جوتے صاف کرتے، مٹی سے آلودہ جوتے خوب چمکا دیتے تھے۔پیدل چلتے ہوئے پانی کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ پانی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹس زائرین میں تقسیم کئے جاتے تھے۔ اس سفر میں حیرت انگیز برکتیں ہیں، کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی۔ اِدھر آپ نے کسی چیز کی خواہش کی، اُدھر کچھ لمحوں بعد آپ کو مل جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جو ایسی چیزیں کی تمنا کرتے تھے، جس کا موسم ہی نہیں، لیکن اس راہ کی ناقابل یقین برکت ہے، وہ چیز دستیاب ہو جاتی تھی، جو حاصل کرنے والے کو اور بھی حیرت میں مبتلا کر دیتی تھی۔

یہ ہے نجف سے کربلا ملین مارچ


حسینِؑ زمان کے لشکر کے افلاکی راستے پر زائرین کے قدموں کی آواز، ہر موکب سے خوش آمدید اے زوارو، خوش آمدید کی گونج، تیزی سے رواں ماتمی دستے سے نوحوں کی بلند ہوتی صدا، زبانوں پر لبیک یاحسین ؑکی پکار، یہ ہے نجف سے کربلا ملین مارچ کا منظر، جو سال بھر چشمِ تصور میں چھایا رہتا ہے۔ جب کربلا جانے کا ارادہ کرتے ہیں تو جلدی سے پہنچنے کی تڑپ ہوتی ہے، ایک ایک لمحہ کربلا پہنچنے کیلئے بے تابی سے گزرتا ہے، جب کربلا پہنچ جاتے ہیں، گویا ہم اپنے وطن میں پہنچ گئے ہیں اور جب چلے جاتے ہیں تو دل وہی رہ جاتا ہے، بار بار کربلا آنے کو پھر سے دل مچلتا ہے۔ راستے پر ہر موکب سے گزرتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ یہاں کچھ وقت گزارا جائے، لیکن وقت کم اور راستہ طویل ہے۔ میں ایک موکب پر رکا، یہاں زائرین کو زبردستی لایا جا رہا تھا، تاکہ ان کے پاﺅں کا مساج کیا جاسکے۔

چلتے چلتے پاﺅں میں چھالے پڑ چکے تھے۔ عقیدتمندوں کیلئے یہ چھالے درنجف سے کم نہیں ہوتے۔۔۔۔ (اگر سخت جوتے استعمال کئے جائیں تو چھالے پڑتے ہیں، اس لئے کھلے اور نرم جوتے پہنتے ہوئے پیدل سفر کرنا ضروری ہے۔) مواکب میں خدمت پر مامور عراقی نوجوان کبھی ان کے پاﺅں دباتے، کبھی مخصوص مشینوں سے کمر اور پاوں کا مساج کرتے تھے۔ یہ بھاری بھر کم نوجوان اس انداز سے مساج کرتے تھے کہ زائرین کی تھکاوٹ کا اثر کم ہو جاتا تھا اور وہ پھر سے تازہ دم ہوکر کربلا کی طرف رواں ہو جاتے تھے۔ سفرِ عشق قدم بہ قدم، موکب سے موکب جاری تھا۔ راستے میں کھانے پینے کی اشیاء کے استعمال کے باعث کچرے کے ڈھیر لگ جاتے تھے، راستے میں پانی کی خالی بوتلیں فلافل کے خالی ڈبے، جوں ہی ڈھیر بن جاتے تو رضاکار ان کو سمیٹ لیتے تھے۔ اس وقت بہت حیرت زدہ ہوا، جب عبا قبا میں ملبوس علمائے کرام کو راستے میں جھاڑو لگاتے دیکھا، رضاکار ان سے جھاڑو لینے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن وہ اس کو اپنے لئے قابلِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس جیسا منظر دیگر مواکب پر بھی نظر آیا، جب علمائے کرام زائرین کے جوتوں کی پالش کرنے میں مصروف تھے۔

امام کے نام پر کروڑوں دل فدا


یہ سفر حیرتوں اور برکتوں سے بھرپور ہے۔ یہاں ہر شخص ایک دوسرے کی مدد کو بے تاب نظر آتا ہے۔ امام حسین ؑنے دس محرم 61 ہجری کو اپنے سینے میں موجود ایک دِل خدا کے عشق میں فدا کیا تھا، اب امام کے نام پر کروڑوں دل فدا ہیں۔ عشاقِ امام حسینؑ ایک دوسرے پر نثار ہوتے نظر آتے ہیں۔ عشاق کا سفرِ شعور جاری ہے، حرم سے کچھ فاصلے پر پول نمبر1407 سے حضرت عباس علمدارؑ کا روضہ مبارک نظر آتا ہے تو ہاتھ سینوں پر رکھ کرزائرین باآواز بلند صدا بلند کرتے ہیں: "سلام یاعباسؑ علمدار ِکربلا ۔" یہ وہ پہلا مقام ہے، جب زائرین کربلا کو پہلی بار مولا عباس ؑکا حرم نظر آتا ہے۔ آقائے تقی بہجتؒ کہتے ہیں کہ حرم ِامام میں داخل ہونے کی اجازت اسی وقت مل جاتی ہے، جب زائر کی آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں۔ اس مقام پر زائرین کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھر جاتی ہیں اور زیارت کی بے تابی بڑھ جاتی ہے۔

قدم یزیدیت کی جڑوں کو اکھاڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔


جوں جوں پول کم ہوتے جا رہے تھے، قدموں کی بے تابی دل کی بے چینی کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی تھی۔ یہ قدم یزیدیت کی جڑوں کو اکھاڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ روزِ عاشور امام حسین علیہ السلام نے ہل من ناصر ینصرنا کی صدا بلند کی تھی۔ وہ صدا آج بھی جاری ہے۔ صدا کی گونج دنیا کے کونے کونے تک قیامت تک پہنچتی رہے گی۔ یہ اسی صدا کا اثر ہے کہ آج نجف سے کربلا کے راستے پر دنیا بھر سے لوگ امامؑ پر جان نثار کرنے والے اُمڈ آئے تھے۔ میں چشمِ تصور میں امام ؑ کی خدمت میںپیش ہوا اور عرض کی۔ "اے امامؑ کیا آپ دیکھ رہے ہیں، کیسے آپ کی صدائے ہل من پر لبیک یاحسینؑ کہتے ہوئے سارے حسینی جمع ہوئے۔ اے امام آپ کا لشکر تیار ہے۔ اے کاش ہم کربلا میں ہوتے تو مثلِ حُر و جون آپ پر جان نثار کر دیتے۔

اے ہمارے مولا و آقا اربعین کا یہ اجتماع آپ کے علم کے ساتھ دنیا بھر کے حسینیوں کو یکجا کر رہا ہے۔ آپ کی صدا آج بھی دنیا کو کھینچ رہی ہے اور ایک مرکز یعنی کربلا کی طرف بلا رہی ہے۔ نجف سے کربلا کے راستے پر ہمارے قدم یزیدیت کی جڑوں کو اکھاڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم آپ کے اشارے کے منتظر ہیں اے امامؑ۔ ہائے کاش شقی القب یزیدیوں نے آپ کے جسم اطہر سے پوشاک کو جدا نہ کیا ہوتا، ہم آپ پر ہونے والے ظلم پر سراپا احتجاج ہیں، ہم زندگی بھر آپ کا سوگ منائیں گے۔ اے امامؑ آپ کے زائر نے آج سیاہ لباس زیب تن کیا ہوا ہے، کاش یہی لباس ہی ہمارا کفن بن جائے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: