Today news

Monday, August 29, 2022

حرم سے حرم تک، نجف سے کربلا (۱)

توقیر کھرل

 Monday 29-8-2022

وہ راستہ جو پاﺅں سے نہیں دل سے طے ہوتا ہے، نجف سے کربلا کو جاتا ہے۔ نجف اشرف میں باب العلمؑ کے در پر سلامِ عقیدت کیا، اذنِ زیارت کا شرف پایا، زہے قسمت زمین کی جنت کربلا کی طرف چل پڑا۔ ایک دنیا میرے آگے تھی، ہر فرد ملت کی قسمت کا روشن ستارہ نظر آیا، عشق و عقیدت کے بحرِ بے کراں میں میری ذاتِ بے نشاں بھی شامل ہوئی، دل میں حرمِِ امام کا عشق، لبوں پر حُسینِؑ زمان کے جلد آمد کی دعا اور علمدارِؑ کربلا کی یاد میں علم ہاتھوں سے بلند کئے عازمِ سفر تھا۔ یہ راستہ عاصی طے کرتے ہیں کہ حُر بن جائیں، لمحوں میں عشق کے مراحل طے کرتا ہے، یہ حق کی راہ ہے۔

شبِ عاشور امامؑ نے چراغ بجھا کر فرمایا، جسے جانا ہے چلا جائے، یہ اہلِ وفا ؑسے عہد کا راستہ ہے۔ صبح عاشور حضرت حُرؑ نے سفرِ عشق کیا۔ ملائکہ نے استقبال کیا، امام ؑنے بانہوں میں تھام لیا۔ کریمِ کربلا نے بڑی کریمی کی، مگر حُر ؑنے لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کر لیا تھا، یہ وہی راہ ہے اور ہم اسی راہ کے راہی ہیں۔ ہمارا تیقن ہے، امام ہمیں بھی قبول کر لیں گے۔ ہم جیسے سنگ دِلوں پر امام کی کریمی کی نگاہ پڑی تو دُر نجف بن جائیں گے۔ اسی عزم کے ساتھ نجف کی گلیوں سے کربلا پیدل سفر شروع کیا۔ سفر کے آغاز میں زائرین کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں زائرین نجف کی گلیاں طے کرتے ہیں، کندھے سے کندھا ملتا ہے، ایک دوسرے سے شفقت سے پیش آتے اور آگے بڑھ جاتے تھے۔ چند قطرے مل کر ندی نالے بنتے دریا میں گرتے، یوں عشق و مودت کا لامتناہی سمندر وسیع تر ہو جاتا تھا۔
راہِ بہشت کا آغاز
نجف شہر سے چند کلومیٹر کے بعد شاہراہ نجف کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہاں پر ہر پچاس میٹر کی دوری پر ایک پول نصب ہے۔ 1452 پولز کربلا تک لگائے گئے ہیں۔ یہ تقریباً 80 کلومیٹر کا سفر ہے۔ اس شاہراہ پر کوفہ اور بصرہ کے قافلے بھی آن ملتے ہیں۔ یہ طویل شاہراہ کربلا سے ملاتی ہے، 80 کلومیٹر تک امام بارگاہیں کم اور مواکب زیادہ ہیں۔ موکب میں زائر کے لئے سہولیات ہوتی ہیں، طعام، استراحت، حتیٰ کہ موبائل چارج کرنے کا انتظام، کپڑے دھونے، سُکھانے کی مشینوں کی سہولتیں بھی ہوتی ہیں۔ ہم ایک موکب کے باہر پہنچے تو عراقی میزبان نے اپنی زبان میں پُرجوش انداز میں خوش آمدید کہا، موکب میں داخل ہوئے تو سرخ قالین، گاو تکیے آراستہ تھے، خشک میوہ جات سے زائرین کی تواضح کی جا رہی تھی۔ موکب میں ایرانی زائرین خشک میوہ جات سے خود کو گرماتے ہوئے حالات حاضرہ پر گفتگو کر رہے تھے۔ ان کی گفتگو کا محور اُن دنوں شام میں ہونے والی جنگ تھی۔
موکب میں کچھ دیر آرام کیا۔ یہ سفر کا پہلا دن تھا، ہر صورت 20 کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا، تاکہ 3 دنوں میں کربلا پہنچ سکوں۔ چلتے ہوئے راستے میں دوست ملے، جن سے ملاقات کو کئی سال بیت گئے تھے۔ زندگی میں کئی لوگ آتے ہیں، بچھڑ جاتے ہیں، کربلا سے جڑا ہو تو مل ہی جاتا ہے۔ کسی ہم دم کا کربلا کے راستہ پر ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ کئی ایسے لوگ بھی نظر آئے، جو دارِفنا سے دارِ بقاء کوچ کرچکے، دنیا بھر سے آنے والے قافلوں میں کسی چہرے میں کسی کی جھلک نظر آتی ہے تو کوئی کسی عزیز کا مشابہ نظر آتا ہے، بڑھتے قدموں کے ساتھ میری یادداشت تیز ہو رہی تھی، بچپن سے کربلا سے منسوب مرثیے، مجالس اور واقعات سب یاد آرہے تھے۔
"ایک اور قدم ہوگئے شبیر کے نزدیک"
امام ؑکے عشق میں ڈوبے تیز قدموں سے کربلا کے بہشتی راستے پر چل رہا تھا۔ ہر شخص تیز قدم سے آگے بڑھ رہا تھا، ہر بڑھتے قدم کے ساتھ امام کے نزدیک ہو رہے تھے۔ امام حسین ؑ کا روضہ روحانی مقناطیست کا حامل ہے۔ نوحہ خواں احمد ناصری کی آواز میں ایک موکب سے نوحہ کی صدا بلند ہوئی "ایک اور قدم ہوگئے شبیر کے نزدیک۔" پاکستانیوں نے موکب لگایا ہوا تھا، قدم قدم پر موکب تھے، ہر موکب پر ٹھہراو ممکن نہ تھا۔ سفر طویل تھا، میزبان منت سماجت کر رہا تھے کہ موکب سے کچھ کھالیں۔ بچوں نے ٹشو پیپر کے ڈبے تو کسی نے پانی کے چھوٹے پیکٹ اٹھائے ہوئے تھے۔ زائرین تیزی سے راہ طے کرتے ہوئے کھجوروں کے ٹوکرے سے چند کھجوریں اٹھاتے اور آگے بڑھ جاتے۔
اب چائے کی طلب ہو رہی تھی، لیکن عراقی نہیں پاکستانی چائے پینی تھی، عراقی چائے کی کڑواہٹ زیادہ ہوتی ہے۔ اس راستے کی کرامت یہ بھی ہے، جو سوچا ملتا ہے۔ خواہشات پوری ہوتی ہیں، دعائیں تو ہوتی ہی ہیں۔ عقل و شعور کا سفر تیزی سے طے ہوتا ہے، یہ افلاک کا سفر ہے، جو دل سے طے ہوتا ہے۔ پاﺅں دل بن جاتے ہیں، جنہیں پہنچے کی جلدی اور جانے کی تڑپ ہے۔ ابھی ہم نے چائے پینے کا سوچا ہی تھا کہ موکب نظر آیا۔ ایرانیوں نے چائے کا انتظام کیا ہوا تھا، موکب سے صدا آرہی تھی چائے ایرانی، چائے لیموں یہ ایرانی ترش چائے، یعنی لیموں والا قہوہ تھا۔ ایک کپ نوش کیا اور آگے بڑھ گئے۔
اے کربلا ہم آرہے ہیں 
 
 زائرین قافلوں اور انفرادی صورت میں پیدل چل رہے تھے، کانوں میں ہینڈ فری لگائے نوحے سن رہا تھا تو کوئی زیارت عاشورہ پڑھتا ہوا عشق کے راہ سے رواں دواں تھا۔ میں نے کچھ فاصلہ قافلے سے جدا ہوکر طے کیا۔ "نجف سے کربلا عزاء کا ایک اژدہام" تھا۔ قدم کربلا کی طرف بڑھ رہے تھے، لبوں پر "اے کربلا ہم آرہے ہیں" نوحہ سجایا ہوا تھا، پہلی بار کربلا کی طرف جا رہا تھا۔ خیالات نے چشم ِتصور سے 61 ہجری کا سفر کیا۔ کربلا کے صحرا میں پہنچا، امام کی صدائے ہل من سنائی دی "کوئی ہے جو میری مد د کرے، کوئی ہے جو حرم رسول اللہ کا دفاع کرے۔" بے ساختہ کہا لبیک یاحسینؑ "اے امامؑ میں حاضر ہوں، میری اولاد، میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے امامؑ میں آرہا ہوں، کربلا کی طرف جہاں آپ کو پیاسا شہید کیا گیا۔ اے کاش میں بھی کربلا میں ہوتا، آپ پر جان نثار کر دیتا، میں بھی اشقیاء کے نیزے تلواروں کا سامنا کرتا۔ جب آپ نے نماز ادا کی، مثِل سعیدؑ میں بھی آپ کا مدافع بنتا، اے کاش میں روز عاشور آپ سے پہلے شہید ہو جاتا، اے کاش میں کربلا میں ہوتا۔"

آنکھیں پُرنم تھیں اور میں حسینِ زمانؑ کی تعجیل کی دعا کر رہا تھا۔ تھکتا تھا تو سیدہ زینبؑ کے سفر کی تھکاوٹ یاد کرتا تھا۔ کربلائی راستوں پر قدم جمائے آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اپنے پاﺅں سے یوں گویا ہوا "آج حق ادا کر دیا، دل کے ہمقدم ہو، میرا دل آج جلد کربلا پہنچنے کیلئے تڑپ رہا ہے اور جانے کیلے بے قرار ہے۔ بروز قیامت گواہی دینا، تمہیں ہمیشہ گناہ کے راستے پر چلایا، مگر اپنے امام کیلئے تمہارے واسطے سے جا رہا ہوں۔ بروز قیامت خدا کے حضور میری گواہی دینا کہ مثلِ حُر یہ قدم امام کی طرف بڑھائے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

No comments: