Today news

Thursday, August 25, 2022

کالمز

سیلاب میں ڈوبا سرائیکی وسیب

سید عدیل زیدی

Thursday 25-8-2022

ملک میں مون سون بارشوں کے تاحال نہ ختم ہونے والے سلسلے نے شدید تباہی مچائی ہے، گلگت بلتستان سے لیکر بلوچستان تک بڑی تعداد میں لوگ سیلاب اور طغیانیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ سندھ کے کئی علاقے زیر آب آچکے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ لاکھوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں، مکانات سمیت مال مویشی بھی لقمہ اجل بن گئے۔ یوں تو سیلاب سے متاثرہ مذکورہ بالا علاقوں میں متعلقہ حکومتوں کی جانب سے ریسکیو اور ریلیف آپریشنز شروع کئے گئے ہیں، تاہم صورتحال اب بھی کنٹرول میں نہیں۔ اس رپورٹ میں جنوبی پنجاب میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات، موجودہ صورتحال اور حکومتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ حالیہ بارشوں کے نتیجے میں سیلاب سے میانوالی، بھکر، لیہ، مظرگڑھ بھی متاثر ہوئے ہیں، تاہم سب سے زیادہ نقصانات تونسہ شریف، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں ہوئے ہیں۔
اب تک موصول ہونے والے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں 151 افراد سیلاب اور بارشوں سے جاں بحق اور 300 زخمی ہوئے ہیں، تقریباً 21 ہزار سے زیادہ مکانات، 33 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئی ہیں جبکہ سات پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اگر این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار سے ہٹ کر بات کی جائے تو نقصانات کا تخمینہ اس سے کہیں زیادہ ہے، سیلاب سے متاثرہ کئی دور دراز علاقے ایسے ہیں جہاں مواصلاتی نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے درست اطلاعات سامنے نہیں آرہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں کوہ سلیمان پر ہونے والی طوفانی بارشوں سے برساتی ندی نالوں میں اب بھی طغیانی ہے۔ نالہ وڈور میں تاریخ کا انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، جس سے اس کا مشرقی بند ٹوٹ گیا اور ڈیرہ غازی خان سے سخی سرور جانے والی روڈ پر قائم درجنوں بستیاں اور فیکٹریاں زیر آب آگئی ہیں۔تونسہ شریف بستی موہانے والا کا حفاظتی بند بھی ٹوٹ گیا ہے، سیلابی پانی کو چشمہ رائٹ بنک کنال کی طرف موڑ دیا گیا۔
بند ٹوٹنے کے بعد قریبی بستیوں کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے تونسہ شریف کے کوہ سلیمان کے دور دراز علاقوں میں رابطہ سڑک سیلابی پانی میں بہہ جانے کے بعد ریسکیو ریلیف آپریشن کے لیے پاک فوج سے ہیلی کاپٹر کی خدمات طلب کر لی ہیں۔ ضلع راجن پور میں بھی ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے ہیں، خاص طور پر روجھان میں اب بھی لوگ کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ سیلاب سے بری طرح متاثرہ ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کا شمار صوبہ کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں عوام کی غالب اکثریت کی زندگی کا دارومدار کھیتی باڑی اور مال مویشی پر ہوتا ہے، اس سیلاب نے جہاں ان لوگوں کی کھڑی فصلوں کو تباہ و برباد کردیا وہیں ایک بڑی تعداد میں مویشی بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ لپمی سکن بیماری نے بھی جنوبی پنجاب میں مویشیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اگر یوں کہا جائے کہ ان علاقوں میں لاکھوں افراد اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے بھی محروم ہوگئے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں ایمرجنسی تو نافذ کی گئی ہے، تاہم بدقسمتی سے وفاقی و صوبائی، دونوں حکومتوں کی جانب سے اس سطح پر ہنگامی اقدامات تادم تحریر نہیں کئے گئے جو اس صورتحال اور حالات کے متقاضی ہیں۔ ملک میں جاری ’’سیاسی دنگل‘‘ کی وجہ سے سیلاب متاثرین کا استحصال ہورہا ہے، مرکز اور صوبہ کی مقتدر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کیخلاف سیاسی کیسز بنانے، جلسے، جلوسوں، پکڑ دھکڑ، عدالتی کارروائیوں اور سیاسی بیان بازیوں میں مصروف ہیں، جبکہ دوسری جانب اب بھی لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہیں۔ سیاسی اکھاڑے میں پنجہ آزمائی میں مصروف مسلم لیگ نون وزیراعظم اور وفاقی وزراء کو کیا معلوم کہ جب کسی غریب ماں، باپ کا بچہ ان کی آنکھوں کے سامنے سیلابی ریلے میں بہہ جائے تو ان بدقسمت والدین پر کیا گزرتی ہوگی۔؟
عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب اور تحریک انصاف کے صوبائی وزراء وہ درد محسوس نہیں کرسکتے کہ جب کسی کا آشیانہ سیلاب میں بہہ جائے اور وہ بے بسی کی تصویر بنے کھڑے رہیں۔ کیا آصف علی زردای اور انکی جماعت کے رہنماء اس درد کا ادراک کر سکتے ہیں کہ ساری زندگی کی جمع پونجی سے بنایا جانے والا بچی کا جہیز محض چند لمحوں میں پانی کی بے رحم موجوں کی نذر ہوجائے اور وہ اس بچی کے ہمراہ نم آنکھوں سے دیکھتے رہ جائیں۔؟ مولانا فضل الرحمان کیا جانیں کہ کسی غریب کے بچے درس قرآن کیلئے مدرسے میں جائیں تو مدرسے کی چھت ہی بارش و سیلاب کی وجہ سے گر جائے اور معصوم بچے ہمیشہ کیلئے اپنے والدین سے دور ہوجائیں۔ یہ درد صرف وہی جان سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔ سرائیکی وسیب اب بھی حکمرانوں کی بے حسی پر نوحہ کناں ہے۔ لاکھوں متاثرین منتظر ہیں کہ ان سیاستدانوں کو باہمی لڑائی جھگڑوں سے فرصت ملے تو وہ ہماری طرف متوجہ ہوں۔ 

 

No comments: