Today news

Wednesday, August 31, 2022

مفتی جعفر حسین مرحوم، خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں

 ارشاد حسین ناصر

Wednesday 31-8-2022

مفتی جعفر حسین قبلہ مرحوم ایک ایسا نام ہے، جسے پاکستان کی ملت تشیع کو کسی بھی طرح فراموش کرنا، ان کے ملت پر ان گنت احسانات کی ناشکری کرنے کے مترادف ہوگا۔ مفتی صاحب مرحوم کا تعلق پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے تھا، وہ حکیم چراغ دین کے منجھلے صاحبزادے تھے۔ قبلہ مفتی جعفر حسین نے گوجرانوالہ میں جامعہ جعفریہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ بر لب جی ٹی روڈ قائم کی، وسیع و عریض رقبہ پر مشتمل اس درسگاہ کو ملت نے ان کی رحلت کے بعد اس طرح اہمیت نہیں دی، جس کا حق رکھتی تھی۔ اب یہ مدرسہ و عظیم یادگار علامہ سید جواد نقوی کی ٹیم کے ہاتھ میں آچکا ہے، جہاں احباب کے مطابق اب اسکول قائم ہے۔ عجب ہے کہ ہمارے دونوں قائدین مفتی جعفر حسین قبلہ اور علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کے خوابوں کے مراکز، جنہیں حوزوی تعلیم و تدریس کیلئے بڑی لگن اور محنت سے بنایا گیا تھا، اب اسکولز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ پشاور مدرسہ میں شہید کے بنائے مدرسہ میں دینی طلاب نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ یہ تین منزلہ خوبصورت بلڈنگ ہے، یہ کسی پر تنقید نہیں بلکہ ایک درد مندانہ بات ہے، قابل غور نکتہ ہے، دعوت فکر و عمل ہے۔

مفتی صاحب ایک انتہائی ادبی شخصیت کے مالک تھے، وہ اہل زبان تھے اور صاحب قلم تھے۔ ان کے پاس اردو کے الفاظ کا جو ذخیرہ تھا، شاید ہی کسی اور میں دیکھا گیاہو۔ انہوں نے ایک کتاب بعنوان سیرت امیرالمومنین ؑ تحریر فرمائی، جبکہ مولا علی ؑ کے خطبات و خطوط و کلمات قصار کے معروف مجموعہ نھج البلاغہ کا ترجمہ و تشریح کی، جسے خاص و عام میں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ آپ کے اردو ترجمہ کو ادبی ذوق رکھنے والے حضرات اور الفاظ کی قدر جاننے والوں کے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ مفتی صاحب قبلہ نے صحیفہ کاملہ کا بھی ترجمہ و تشریح کی ہے۔ ان سے بڑے کا نام محمد حسن اور ان سے چھوٹے کا نام منظور حسین تھا۔ جعفر حسین 1914ء میں پیدا ہوئے، وہ اپنے بھائی سے دو سال چھوٹے تھے مگر تعلیمی لحاظ سے دونوں بھائیوں میں ایک جماعت کا فرق تھا، جو ایک موقعہ پر جا کار یہ فرق بھی ختم ہوگیا، بڑے بھائی بیماری کے سبب ایک سال تعلیمی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکے اور یوں دونوں بھائی ایک ہی کلاس کے طالبعلم ہوگئے۔

مفتی صاحب کا گھرانہ حکمت و طب میں بہت نامور تھا، ان کے چچا حکیم شہاب الدین جنہیں طب میں مہارت حاصل تھی، ادبی لحاظ سے بھی ایک مقام رکھتے تھے اور انہیں اردو، فارسی، پنجابی میں شاعری سے شغف تھا۔ چچا حکیم شہاب الدین نے ہی جعفر حسین کی پرورش اور تربیت اپنے ذمہ لی تھی۔ کہتے ہیں کہ چچا کی تربیت اور تعلیم جعفر حسین کے قلب و نظر کو پاکیزہ اور روشن کرنے کا سبب بنی۔ انہیں کم سنی میں ہی معصومین و اہلبیت عظام ؑ کے حالات زندگی اور کارہائے نمایاں سے مکمل آگاہی حاصل ہوئی، جس سے وہ بے حد متاثر ہوئے۔ آئمہ طاہرین ؑکی حیات مبارکہ اور سیرت رسول خدا ؐ کے نورانی پہلوئوں بالخصوص خدمت خلق، فقر و صبر و سادہ زیستی نے انہیں ان صفات کو اپنے اوپر لاگو کرنے اور عملی انسان بننے کا خوگر بنا دیا، جس کو تاآخر انہوں نے قائم رکھا۔ وہ بچپن سے ہی اپنے تایا چچا کی تربیت و رہنمائی میں نماز و روزہ کی پابندی اور کم کھانے کے عادی بن چکے تھے اور انہیں ایام جوانی سے پہلے ہی تقریریں کرنے بالخصوص مقدس ہستیوں کے حالات زندگی بیان کرنے کا شوق تھا۔

صرف پانچ برس کی عمر میں انہیں قرآن و عربی کی تعلیم دی جانے لگی، جبکہ دو سال بعد یعنی سات سال کی عمر میں حدیث و فقہ کی تعلیم اپنے مہربان و نگہبان چچا سے حاصل کرنا شروع کی۔ عربی حدیث و فقہ کی تعلیم چچا کے علاوہ مولانا چراغ علی خطیب مسجد اہلسنت اور حکیم قاضی عبد الرحیم جو مدرسہ ندویہ لکھنو کے فارغ التحصیل تھے، سے بھی حاصل کی۔ کہتے ہیں کہ صرف بارہ برس کی عمر میں جعفر حسین طب، حدیث، فقہ اور عربی زبان پر کافی عبور پا چکے تھے اور مختلف خصوصیات کی بدولت صاحبان علم کو متوجہ کئے ہوئے تھے۔ اسی دوران موچی دروازہ لاہور کے مرزا احمد علی مرحوم نے انہیں دیکھا تو ان میں موجود پوشیدہ خصوصیات کو بھانپ گئے اور اس جوہر کمال کو اپنے ساتھ لکھنو لے گئے۔ یہ 1926ء کی بات ہے، اس وقت لکھنوء علم و تہذیب کا گہوارہ، فصاحت و بلاغت میں ایک نام رکھتا تھا۔ یہاں ادب و ثقافت اپنے اوج پر تھے، لکھنئو میں آپ کو مدرسہ ناظمیہ میں جناب مولانا ابو الحسن عرف منن کے سپرد کر دیا گیا۔

لکھنئو میں آپ سید علی نقی صاحب، جناب مولانا ظہور الحسن صاحب اور مفتی احمد علی صاحب سے بھی کسب فیض حاصل کرتے رہے اور بحر علم سے مستفیض ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی علمی منازل کو طے کرتے رہے۔ اس علمی و ادبی و ثقافتی بلندی کے ماحول میں رہ کر آپ کے خیالات و افکار میں بھی تنوع پیدا ہوا اور انہیں مختلف خیالات و افکار کو پختہ کرنے کا بھرپور موقعہ ملا۔ آپ نے یہاں رہ کر تہذیب نفس پر بھی توجہ رکھی اور اس سے کبھی بھی غافل نہ ہوئے۔ لکھنئو میں اپنے ادبی ذوق کو بھی خوب پروان چڑھایا، اس مقصد کے لئے ایک انجمن بنام انجمن مقاصدہ کے پلیٹ فارم سے ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، آپ اس انجمن مقاصدہ کے ایک عرصہ تک ناظم بھی رہے۔ لکھنئو میں آپ کے تمام اساتذہ اس بات پر متفق تھے کہ جعفر حسین ایک بلند اور روشن ستارہ بن کر سامنے آئے گا اور یہ نام روشن کرے گا۔ نو سال تک مسلسل علم دین کی گہرائیوں کو سمجھنے کی جدوجہد میں آپ نے کئی اعزازات اور نمایاں کامیابیاں سمیٹیں۔

اس کے بعد 1935ء میں مزید تعلیم اور علوم اہلبیت ؑسے مستفید ہونے کیلئے اس وقت کے حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق تشریف لے گئے، وہان پانچ برس تک مسلسل فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی خوش قسمتی کہ نجف میں آپ کو آقائے ابوالحسن اصفہانی جیسے صاحب شریعت اور عالم باعمل استاد میسر آئے، نجف میں بھی قیام کے دوران آپ کی خودداری اور زندگی کے ڈھنگ ویسے ہی رہے، آپ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے بھوک و فاقہ کو اختیار کرتے تھے، نجف اشرف عراق میں قیام کے دوران آپ کی ملاقات اظہر حسن زیدی صاحب سے ہوئی، جن سے بعد ازاں گہری دوستی و رفاقت قائم ہوگئی۔ مولانا اظہر حسن زیدی بعد ازاں بلند پایہ خطیب اور ادبی نابغہ کے طور پر معروف ہوئے، ان کی تقاریر آج بھی خطباء کو مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ نجف میں پانچ برس قیام اور علوم آل محمد ؑ سے فیض یاب ہونے کے بعد آپ واپس لوٹے، اس وقت آپ کا تعارف مفتی جعفر حسین کے نام سے ہوا۔ آپ نے پہلے دو برس تو نوگانواں سادات ضلع مراد آباد میں بطور دینی مدرس گزارے، اس کے بعد آپ واپس اپنے آبائی علاقہ گوجرانوالہ تشریف لے آئے۔

 29
اگست کا دن ان کی رحلت جانگداز کا دن ہے، زندہ قومیں اپنے محسنوں اور رہبروں کی یادیں تزک و احتشام اور شایان شان طریقہ سے مناتی ہیں۔ وہ جنہوں نے قوم پر احسان کئے ہوتے ہیں، جنہوں نے قوم کیلئے قربانیاں دی ہوتی ہیں، جنہوں نے اپنی ذات پر قوم و ملت کو ہر معاملے میں ترجیح دی ہوتی ہے۔ ہم اہل تشیع اس حوالے سے بڑے ہی خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس ایسی ہستیاں ہیں، جنہیں معصوم سمجھتے ہیں اور جو خدا کے خاص الخاص ہیں، جن کی زندگیاں روشن اور تابندہ و درخشندہ ہیں۔ ہم وہ ہستیاں اور رہبران رکھتے ہیں، جنہوں نے ایسا کردار ادا کیا کہ تاریخ ان کا تذکرہ نہ کرے تو مکمل نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس وہ ہستیاں اور رہبر موجود ہیں، جن کا تذکرہ کرکے ان کی یاد منا کر ہم اپنے نئی نسل کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں۔ ہمارے پاس آئمہ و معصومین ؑ اور ان کے نائبین برحق کی اتنی بڑی تاریخ ہے کہ ہر زمانہ اور دور ان کے کردار سے روشن ہے۔ ہر علاقہ و منطقہ ان سے مستفید ہوا ہے، ہر خطہ و ریاست ان سے رہنمائی لیتی رہی ہے۔

ہمارا خطہ جسے ارض پاک و ہند کہا گیا ہے، بھی اس حوالے سے بہت ہی خوش قسمت ہے کہ یہاں ایسی ہستیوں نے جنم لیا، جن کی یاد منا کر ہم ان کے احسانات کا بدلہ چکا سکتے ہیں۔ کسی حد تک حق ادا کرسکتے ہیں۔ اس خطہ ارضی پر بھی ہمارے مکتب کے ایسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے، جنہوں نے اس مکتب کی ایسی خدمت کی کہ رہتی دنیا تک ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔ موجودہ نسل کو ایسے بندگان خدا کی زندگیوں، ان کی ملی و مکتبی و دینی خدمات سے روشناس کروانا، تاکہ وہ اس امانت کو اگلی نسلوں میں منتقل کرسکیں، از حد ضروری ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں اس طرح کی شخصیات کے نام پر ادارے بنائے جاتے ہیں، ان کے نام کو زندہ رکھنے کیلئے ڈاک ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں، ان کے نام پر تعلیمی وظائف لگائے جاتے ہیں اور ایسی نابغہ روزگار شخصیات کے نام پر ہسپتال، لائبریریز، اسکولز، یونیورسٹیز، مدارس قائم کئے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ شخصیات اگلی نسلوں تک زندہ رہتی ہیں، ان کا کام بھی انہیں زندہ رکھتا ہے۔

ہمارا ملک جو قبل ازیں برطانیہ کے قبضہ میں تھا اور ایک مشترک معاشرہ تھا، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی سب ایک ساتھ رہتے تھے۔ اس کی آزادی سے قبل کتنے ہی ادارے ہمیں نظر آتے ہیں، جو کسی انگریز، کسی سکھ، کسی ہندو کے نام پر قائم ہیں۔ کئی زمینیں اور جائیدادیں اب بھی ایسے ٹرسٹوں کے نام پر ہیں، جو کسی ہندو کی تھی، کسی سکھ یا انگریز کی تھی۔ کتنی شاہراہیں اور سڑکیں ہیں، جو ایسے ہی ناموں سے شناخت اور پکاری جاتی ہیں، جنہوں نے اس خطے میں کسی حوالے سے سماج کی خدمت کی، ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے ہیروز اور محسنوں کو نہیں بھولتیں، لاہور جو ایک تاریخی شہر ہے، کے اسپتالوں کو ہی دیکھ لیں، کالجز کے نام ہی دیکھ لیں، بڑی بلڈنگوں کے نام ہی دیکھ لیں تو اندازہ لگ جاتا ہے۔

مفتی جعفر حسین قبلہ انتہائی بے باک اور نڈر انسان تھے، حق گوئی و بے باکی ان کا وطیرہ اور شان تھی۔ آپ بے حد نڈر اور بے باک تھے۔ آپ صاف گو تھے اور کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھتے تھے۔ اپنا ہر کام انتہائی جانفشانی اور لگن و محنت سے کرتے تھے۔ آپ دیانت و صداقت کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ آپ کی تمام زندگی انتہائی سادگی اور تصنع و بناوٹ سے بہت دور رہ کر گزری۔ ان کی سادگی کی ان گنت مثالیں آج بھی بچے بچے کو یاد ہیں۔ کئی جگہوں پر وہ جب مجلس پڑھنے یا دورہ پر گئے اور کپڑوں کو دھونے کی ضرورت محسوس کی تو انہوں نے کسی میزبان کو زحمت دینے کی بجائے خود ہی لباس دھو لیا جبکہ وہ قائد ملت جعفریہ تھے اور علمی لحاظ سے اتنا بلند مقام رکھتے تھے کہ ان کی خدمت کرنا ہر ایک اپنے لئے سعادت و خوشبختی سمجھتا۔ اسی طرح کئی ایک جگہوں پر اس وقت کی عمومی سواری تانگہ میں سوار ہو کر چلے جاتے، لوگ ان کی سادگی کو دیکھ ششدر و حیران رہ جاتے تھے کہ ایک قوم کا قائد جو علم و فضل میں کسی سے بھی کم نہیں تھے، اتنے سادہ اور بناوٹ و رکھ رکھائو کے دنیاوی تقاضوں سے دور ہیں۔

مفتی جعفر حسین قبلہ مرحوم ایک مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور دو بار اسلامی مشاورتی کونسل کے رکن منتخب کیئے گئے۔ ان کے ساتھ دینی خدمات سرانجام دینے کیلئے علامہ حافظ کفایت حسین اور علامہ رضی مجتھد ہوتے تھے۔ آپ نے 1951ء میں علماء کے بائیس نکات پر متفق ہونے کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا، اس تحریک میں آپ کے ساتھ علامہ حافظ کفایت حسین مرحوم بھی فعال کردار ادا کر رہے تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق شب خون مار کر اقتدار پہ قابض ہوا تو اس نے اسلامائزیشن کا نعرہ لگا کر اہل پاکستان کو بےوقوف بنانے کی کوشش کی، اس نے مخصوص فقہ کے نفاذ کا اعلان کیا، اسی دوران 30 جون کے دن حکومت نے زکوٰۃ آرڈیننس جاری کیا، جس میں مکتب تشیع کے نقطہ نظر کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ اس ماحول میں مشاورت اور باہمی تجاویز کے بعد شہید باقر الصدر کی المناک شہادت کے حوالے سے ہونے والے کنونشن کو نفاذ فقہ جعفریہ کے عنوان سے منانے کا اعلان ہوا، جس کی توثیق قائد ملت جعفریہ نے بھی کر دی۔

اگرچہ آپ ایسے کسی بھی اجتماع اور احتجاج جس سے کسی بھی بندہ مومن کی جان جانے کا خطرہ ہوتا، اس کی اجازت نہیں دیتے تھے، مگر اس کنونشن پر آپ راضی ہوئے اور اسلام آباد پوری قوم کو بلایا۔ اس کیلئے ملک بھر کے تنظیمی دورے نہیں کئے، بس پریس کانفرنس کی تو قوم بھی آپ کی آواز پر چلی آئی۔ آج بھی اس تاریخ کو یاد کیا جاتا ہے۔ اس کنونشن میں جہاں دیگر تنظیموں اور شخصیات نے اہم کردار ادا کیا، وہاں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور نوجوانان امامیہ(آئی ایس او پاکستان) نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ہاکی گرائونڈ اسلام آباد میں ہونے والے اس کنونشن میں ملک بھر سے ملت جعفریہ کے سپوتوں، علماء ذاکرین، زعمائے ملت، شعرائے قوم، طالبعلموں نے بھرپور شرکت کی اور اپنے جذبات و احساسات کو ملکی سطح پر حکمرانوں تک پہنچائے۔ قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین نے اس جلسہ اور احتجاج کی صدارت کی۔ وزارت مذہبی امور اور صدر مملکت سے مذاکرات کے کئی دور چلے اور بالآخر حکومت کو ملت جعفریہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ایک معاہدہ روبہ عمل لایا گیا، جس کی رو سے یہ طے ہو کہ جو بھی اسلامی قانون بنے گا، اس میں فقہ جعفری کا خیال رکھا جائے گا اور زکوٰۃ آرڈیننس میں بھی ترمیم کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔

ایسا نہیں تھا کہ اہل تشیع زکوٰۃ دینے سے انکاری تھے بلکہ حکومت کے طریقہ کار اور کرنسی نوٹوں پر زکوٰۃ دینے کے شرعی مسئلہ پر اپنا جدا موقف رکھتے تھے، جس پر احتجاج کیا گیا۔ ملت جعفریہ کی اس جدوجہد کا فائدہ آج بلا تفریق تمام مسالک کے لوگ اٹھا رہے ہیں۔ مفتی جعفر حسین قبلہ کی جدوجہد کا یہ باب کسی بھی طور بھلایا نہیں جاسکتا۔ آج جب پاکستان کے لاکھوں لوگ اسلام آباد میں اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے سراپا احتجاج ہیں تو ملت جعفریہ کی تاریخی جدوجہد کے مناظر بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ اس کنونشن میں شورکوٹ کا ایک جوان شاد حسین شہید ہوا۔ شہید قائد نے اسی معاہدہ کی یاد دہانی اور عمل درآمد کروانے کے مطالبے کے ساتھ 6 جولائی 1985ء کو یوم احتجاج کا اعلان کیا تھا، جس میں کوئٹہ میں حکومت نے بدترین ظلم کیا اور سولہ لوگ شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ قوم کا یہ عظیم محسن، سادگی کی منفرد مثال پیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے تو میو ہسپتال لاہور، پھر لندن اور لندن سے پھر واپس لاہور لائے گئے۔ ان کا انتقال 29 اگست 1983ء کو میو ہسپتال لاہور میں ہوا اور کربلا گامے شاہ لاہور میں دفن کئے گئے۔ جنازہ میں ملک بھر سے علماء، عوام کے جم غفیر اور تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے بھی شرکت کی۔

 

 

 

No comments: