Today news

Friday, August 26, 2022

کالمز، جماعت اسلامی کیوں قائم کی گئی ؟

آباد شاہ پوری 

 Friday 26-8-2022

جماعت اسلامی کا قیام خلا میں نہیں ہوا۔ بہت سی دوسری جماعتیں بھی کام کر رہی تھیں۔ان میں مسلمانوں کی جماعتیں بھی تھیں اور غیر مسلموں کی بھی۔ مسلمانوں کی جماعتوں میں سیاسی جماعتیں بھی تھیں اور دینی جماعتیں اور گروہ بھی۔ جماعت اسلامی جس مقصد اور نصب العین پر بنائی گئی اسکی دعوت سید مودودی ؒ 1933ءسے دیتے آ رہے تھے۔ اگر یہ دعوت مسلمانوں کی کوئی بھی دوسری جماعت قبول کر لیتی اور اسکے مقصد اور نصب العین کو اپنا مقصد اور نصب العین بنا لیتی تو جماعت اسلامی قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس لیے مقصد ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانا نہ تھا بلکہ ایک ایسی جماعتی ہیئت کو وجود میں لانا تھا جو خالصتاً اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا فریضہ انجام دے۔لیکن جب کسی جماعت نے بھی اس دعوت پر کان نہ دھرے تو سید صاحبؒ نے خود جماعت اسلامی بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے لیکن جس اختصار مگر جامعیت کے ساتھ سید صاحبؒ نے تشکیل جماعت کا سبب خود بیان کیا ہے شاید اس سے مختصر اور جامع طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سید مودودیؒ نے کہا ”جماعت سازی کا یہ قصور ہم نے مجبوراً کیا ہے نہ کہ شوقیہ۔ سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے میں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صرف کر رہے ہو، تمہارے کرنے کا اصل کام تو یہ ہے، اس پر اپنی تمام مساعی مرکوز کرو۔ یہ دعوت اگر سب مسلمان قبول کر لیتے تو کہنا ہی کیا تھا۔ مسلمانوں میں ایک نئی جماعت بننے کے بجائے مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندوستان کی حد تک وہ الجماعت ہوتی جس کی موجودگی میں کوئی دوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہیں تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں کوئی ایک ہی اسے مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے۔ اسی میں بخوشی شامل ہو جاتے۔ مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر نہ دیا تب ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اس کام کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں خود ہی مجتمع ہوں اور اس کیلئے اجتماعی سعی کریں۔

دعوت کے ابتدائی چار پانچ برس افکار و نظریات کی تطہیر اور تعمیر نو میں صرف ہوئے۔ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افکار و نظریات اور عملی کردار کی طرح سید صاحبؒ نے مسلمانوں کی سیاسی زندگی اور افکار پر بھی تنقید کی۔ اس زمانے میںمسلمانوں کی سیاست دو بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ جس نے تحریک خلافت چلائی تھی، کانگرس اور متحدہ قومیت کا ہم نوا تھا۔ ان کی قیادت جمعیة العلمائے ہند کر رہی تھی۔ پھر مجلس خلافت ٹوٹنے کے نتیجے میں مجلس احرار اسلام وجود میں آئی تھی۔ فکری اور نظریاتی طور پر یہ لوگ بھی جمعیة علمائے ہند کے ہم مسلک تھے۔ دوسرا حصہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو کانگرس کی ہندو پالیسیوں اور ہندوﺅں کی متعصبانہ ذہنیت سے تنگ آ کر الگ ہو گیا تھااور اپنی شناخت کو نیا سیاسی پیکر دینے کی تلاش میں تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اس گروہ کے رہنما تھے۔

دوسرا سیاسی دھڑا ان لوگوں کا تھا جو نہ تو کانگرس میں یا اسکی حامی جماعتوں میں کبھی شریک ہوا تھا اور نہ جنگ آزادی کی سیاست ہی میں اس نے کوئی فعال حصہ لیا تھا۔ ایک لحاظ سے وہ الگ تھلگ رہ کر اس سارے سیناریو کا تماشائی رہا تھا جوکانگرس کی سوراج کی تحریک اور تحریک خلافت نے مل کر تشکیل دیا تھا۔ تاہم اس گروہ میں اچھی خاصی تعداد ایسے افراد کی تھی جو مسلم اُمہّ کا درد رکھتے تھے اور اسکے مسائل کے بارے میں مخلص تھے۔ یہ عنصر اس زمانے میںبھی مسلم لیگ کے پرچم تلے کھڑا رہا تھا اور اب بھی اسکی وفاداریاں مسلم لیگ کے ساتھ تھیں۔ انہی افراد میں سے ایک ممتاز و نمایاں فرد علامہ اقبالؒ تھے جنھوں نے 1930ءمیں مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہندوستان کے مسلم اکثریت کے علاقوں میں آزاد مسلم مملکت کے قیام میں بنایا تھا۔ یہ گویا اس بات کا اظہار تھا کہ مسلمان اپنی جس شناخت کی تلاش میں ہیں وہ ہندوستان میں انکی آزاد مملکت کی صورت میں انھیں مل سکتی ہے۔ تاہم یہ اپنے دور کی عبقری شخصیت کی ایک تجویز تھی جو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کی گئی تھی۔ مسلم لیگ اس وقت تک فعال اور متحرک نہیں ہوئی تھی اور ایک مختصر سی مدت کو چھوڑ کر وہ اب بھی اسی ڈگر پر چل رہی تھی جس کو اس نے اپنے یوم ولادت سے اپنایا تھا۔ اس نشاة ثانیہ کیلئے ایک ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو متحرک مرد عمل ہو۔ وہ رہنما اسے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں مل گیا اور 1935ءمیں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا آغاز ہوا۔ تاہم علامہ اقبالؒ کی تجویز کردہ آزاد مسلم مملکت کے قیام کی تحریک ”تحریک پاکستان“ کے نام سے بہت بعد میں شروع ہوئی۔سید مودودیؒ الگ سے کوئی نئی جماعت قائم کرنے کے خواہش مند نہ تھے، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر پہلے سے کام کرنے والی جماعتیں سب یا ان میں سے کوئی ایک اس دعوت اور اسکے مقصد اور نصب العین کو اپنا لے، لیکن جب ایسا نہ ہوا تو ان کیلئے خود ان لوگوں کو ایک جماعت کی صورت میں منظم کرنے کے سواکوئی چارہ نہ رہاجو اس دعوت کو دعوت حق سمجھتے تھے اور اس مقصد اور نصب العین کیلئے جدوجہد کرنے کو تیار تھے جو ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین تھا۔ جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی اور اسکے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جانے لگیں۔ ایک غلط فہمی جو پھیلائی گئی وہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی دوسری جماعتوں کے مقابلے میں تشکیل دی گئی ہے اور وہ ان کی حریف ہے۔ سید صاحبؒ نے جماعت کی زندگی کے بالکل ابتدائی دنوں ہی میں اس کی تردید کرتے ہوئے اس غلط فہمی کورفع کرنے کی کوشش کی۔ 

No comments: