Today news

Friday, August 26, 2022

کالمز، ایمن الظواہری کی ٹارگت کلنگ کے ممکنہ اثرات

ہادی محمدی

Friday 26-8-2022

یکم اگست 2022ء کے دن صبح کے وقت افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے مرکزی رہنما سراج الدین حقانی کا گھر امریکی ڈرون طیارے کے میزائل حملے سے گونج اٹھا۔ فوراً بعد امریکی ذرائع نے اس حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کا دعوی کر دیا۔ بعد میں امریکہ کے انٹیلی جنس ذرائع کی جاری کردہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی جاسوسی اداروں نے گذشتہ تقریباً تین ماہ سے اس گھر پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ یہ جاسوسی سرگرمیاں بغیر پائلٹ ڈرون طیاروں اور جاسوسی سیٹلائٹس کے ذریعے انجام پا رہی تھیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ امریکہ پاکستانی حکام کی اطلاع کے بغیر اس ملک کی فضائی حدود کو زیر استعمال لاتا رہا تھا اور اس کے ڈرون طیارے کابل میں سراج الدین حقانی کے گھر کی جاسوسی کرتے رہے تھے۔

 
اسی طرح امریکی انٹیلی جنس ذرائع نے مقامی جاسوسوں کی مدد سے اس گھر میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی موجودگی کے بارے میں بھی یقین حاصل کیا۔ ایمن الظواہری کی ٹارگٹ کلنگ ایسا واقعہ ہے جس کے افغانستان اور خطے کے حالات پر بہت گہرے اثرات پڑنے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر افغانستان کے حالات اور طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان فاصلے ایجاد ہونے کے بارے میں اس واقعہ کے اثرات بہت ہی شدید اور گہرے ہو سکتے ہیں۔ البتہ یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایمن الظواہری کو ایک خاص وقت اور ایک خاص جگہ نشانہ بنائے جانے کے پس پردہ ایک اہم مقصد طالبان کے مختلف دھڑوں میں پھوٹ ڈال کر انہیں آپس میں الجھانا ہو۔
 
طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ سمیت دیگر اہم رہنماوں نے اس واقعہ پر اپنا اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم مختصر مدت کیلئے ہی سہی، طالبان کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے دوحہ میں انجام پانے والی امریکی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہو جائیں گی۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں ایمن الظواہری کی موجودگی کو بہانہ بنا کر طالبان سے بھتہ وصول نہیں کر پائے گا۔ ایمن الظواہری کی ٹارگٹ کلنگ کا ایک اہم اثر طالبان اور پاکستان کے تعلقات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ گذشتہ ایک برس کے دوران طالبان اور پاکستان کے تعلقات بہت زیادہ اتار چڑھاو کا شکار رہے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان بھی اپنے طور پر کردار ادا کرتی آئی ہے۔
 
ایمن الظواہری کی ٹارگٹ کلنگ پہلے سے شدید اقتصادی مشکلات میں گھرے پاکستان کیلئے سکیورٹی مشکلات بھی جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ طالبان اس واقعہ میں پاکستان کو بھی ملوث گردانتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاک آرمی کے خلاف دوبارہ اعلان جنگ اس واقعہ کا پہلا اثر ہے اور القاعدہ کی جانب سے مزید ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔ ایمن الظواہری ایک ڈاکٹر تھے لیکن ان کا جانشین مصر کا تجربہ کار سابق فوجی افسر ہے لہذا اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ وہ امریکہ سے انتقام کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے گا۔ اسی طرح القاعدہ کی جانب سے امریکہ کے خلاف مسلح اقدامات بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائیں گی۔
 
امریکہ کی جانب سے ایمن الظواہری کی ٹارگٹ کلنگ کا ایک اور اہم اثر طالبان پر پڑنے کا امکان بھی ہے۔ یہ اثر طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان بے اعتمادی کی فضا قائم ہونے کی صورت میں ظاہر ہو گا اور سب غدار کی تلاش میں مصروف ہو جائیں گے۔ سنا گیا ہے کہ ملا ہیبت اللہ نے کہا ہے: "ایمن الظواہری کو میرے پاس کیوں نہیں لائے تاکہ میں اس سے ملاقات کرتا؟" اگرچہ بعض گروہ امیدوار ہیں کہ اس واقعہ کی تحقیق کرنے والا گروہ اس نتیجے پر پہنچے کہ "امریکی میزائل حملے والی جگہ سے کوئی لاش برآمد نہیں ہو سکی"۔ موجودہ حالات میں طالبان کے تمام دھڑے اس مشترکہ نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگرچہ امریکہ نے دوحہ میں اپنا نرم چہرہ ظاہر کیا تھا لیکن وہ تمام طالبان دھڑوں سے انتقام لینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
 
طالبان کے تمام دھڑے اس حقیقت کو بھی بخوبی درک کر چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے متعلق مخصوص منصوبہ تیار کر چکا ہے اور اس منصوبے کو جامہ عمل پہنانے کیلئے طالبان کے کسی دھڑے کو معاف نہیں کرے گا۔ طالبان کا وہ دھڑا جس نے دوحہ میں امریکہ سے مذاکرات کئے تھے اور وہ دھڑا جس نے ایمن الظواہری کو پناہ دے رکھی تھی، دونوں امریکہ کے نشانے پر ہیں۔ مختصر یہ کہ ایمن الظواہری کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد افغانستان تیزی سے عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ 20 دنوں سے داعش اور داعش خراسان کا سرگرم عمل ہو جانا اور دہشت گردانہ اقدامات انجام دینا دراصل امریکہ کے اس اقدام سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ مستقبل قریب میں بدامنی کی اس فضا میں مزید شدت آئے گی اور انتقامی کاروائیوں میں بھی تیزی آئے گی۔

No comments: