Today news

Wednesday, August 31, 2022

شام میں امریکہ کی نئی شرارت

 ڈاکٹر حامد رحیم پور

Wednesday 31-8-2022


ان دنوں شام ایک بار پھر اسلامی مزاحمتی فورسز اور امریکی فوجیوں کے درمیان جنگ کا میدان بن گیا ہے۔ خطے میں امریکہ کی مرکزی کمان سینٹکام نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے صدر جو بائیڈن کے حکم پر شام کے شہر دیرالزور میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی حمایت یافتہ فورسز کے ایک مرکز کو نشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف جوابی کاروائی کے طور پر اسلامی مزاحمتی فورسز نے دریائے فرات کے مشرقی حصے میں موجود امریکی فوجیوں کے ٹھکانوں پر فجر 1 راکٹ برسائے ہیں۔ یہ راکٹ دراصل ایرانی ساختہ 107 ملی میٹر منی کیٹیوشا ہیں جو عراق اور شام میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور امریکی ٹھکانوں پر حملہ کرنے میں بہت زیادہ بروئے کار لائے جاتے ہیں۔
 
خبروں میں فجر 1 راکٹ کا نام ذکر کرنے کا مقصد قابض امریکی فوجیوں کو واضح پیغام بھیجنا تھا کیونکہ سینٹکام کی رپورٹ میں بھی واضح طور پر اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایران کے حمایت یافتہ گروپس کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران سے جوہری مذاکرات کے آخری مرحلے میں شام میں تناو پیدا کرنے اور اسلامی مزاحمت کے مراکز کو نشانہ بنانے کا اصل مقصد کیا ہے؟ کچھ ہی دن پہلے کویت میں امریکی فوجی اڈہ علی السالم پر ڈرون حملہ انجام پایا ہے۔ ان دونوں خبروں کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان نچلی اور پوشیدہ سطح پر جنگ جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکمران ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے مخالفین کو بھی راضی رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
 
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے مخالفین امریکہ کے اندر بھی پائے جاتے ہیں اور خطے میں بھی موجود ہیں۔ لہذا امریکی حکمران اعلانیہ طور پر ایران سے وابستہ فورسز کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ خطے میں ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ دوسری طرف جو بائیڈن بھی اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں اس تاثر کو مستقل حیثیت دینے کے خواہاں ہیں لیکن وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسلامی مزاحمت کی طاقت انہیں اس مقصد تک پہنچنے کی اجازت نہیں دے گی۔ امریکہ کو یہ اہم اور بنیادی بات سمجھ لینی چاہئے کہ وہ ہر گز ایسی پوزیشن میں نہیں کہ سرکاری سطح پر عراق یا شام میں ایران سے وابستہ فوجی ٹھکانوں پر حملے کا اعلان کرے اور اس کے بعد اسے کسی قسم کے نتائج بھگتنا نہ پڑ جائیں۔
 
 
امریکی دہشت گردوں کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے سے امریکیوں کو نکال باہر کرنے کو اپنا اہم ترین اسٹریٹجک مقصد قرار دے رکھا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک نے امریکی حکمرانوں کو واضح طور پر بتا رکھا ہے کہ ان کی جانب سے انجام پانے والے ہر جارحانہ اقدام کا براہ راست اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ شام میں امریکہ کی حالیہ شرارت ٹھیک اس وقت انجام پائی ہے جب واشنگٹن نے ایران سے جوہری مذاکرات کے بارے میں اپنا جوابی پیغام یورپی ممالک کو ارسال کیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف عراق میں کچھ ایسے حالات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے امریکی حکمران اسلامی مزاحمتی بلاک کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
عراق میں مقتدا صدر اور حشد الشعبی کے درمیان پیدا ہونے والے سیاسی اختلافات کے تناظر میں شاید امریکہ یہ سوچ بیٹھا ہے کہ اسلامی مزاحمت کمزوری کا شکار ہو چکی ہے اور اس کے جارحانہ اقدام کا مناسب جواب نہیں دیا جائے گا۔ امریکہ نے شام میں یہ سوچ کر اسلامی مزاحمت کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا کہ ایران کی اتحادی قوتیں جوابی کاروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لہذا اسے بالادستی حاصل ہے۔ لیکن بہت ہی جلد اس کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی اور اسے دسیوں راکٹ کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اب وہ اس حقیقت کو بخوبی درک کر چکا ہے کہ خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کا فیصلہ ایک اسٹریٹجک اور اٹل فیصلہ ہے۔ شام میں امریکہ کی حالیہ شرارت کا ایک مقصد اپنے اسٹریٹجک اتحادی اسرائیل کو راضی کرنا بھی ہو سکتا ہے جو بورجام کا شدید مخالف ہے۔
 
گذشتہ برس موسم گرما میں عراق میں اسلامی مزاحمت نے امریکی فوجیوں کے ناک میں دم کر رکھا تھا اور ہر روز انہیں راکٹ حملوں، ڈرون حملوں اور سڑک کے کنارے بم حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس صورتحال سے تنگ آ کر امریکہ نے عراق سے مکمل فوجی انخلاء کا فیصلہ کیا۔ لہذا امید ہے اب شام میں بھی امریکی فوجیوں کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ امریکی فوجی زیادہ تر شام کے مشرقی حصے میں براجمان ہیں جہاں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ اب تک کئی ایسی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ شام سے خام تیل چوری کرنے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف شام حکومت بھی اعلان کر چکی ہے کہ ملک میں موجود امریکی فوجی اس کی اجازت کے بغیر موجود ہیں لہذا بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھی یہ موجودگی غیر قانونی ہے۔


 

 

 

No comments: