صیہونی پرنٹ میڈیا نے اسرائیلی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تل ابیب حکومت دریائے مدیٹرانہ اور لبنان کے ساتھ متنازعہ کاریش فیلڈ سے گیس نکالنے کے لئے تیار ہے۔ اس اخبار کے مطابق صیہونی سکیورٹی اور عسکری ادارے حزب اللہ لبنان کے ساتھ ممکنہ "محدود" تصادم کے لیے بھی تیار ہیں، البتہ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تصادم کا امکان بہت کم ہے۔ اس سے پہلے صیہونی وزیر جنگ "بنی گینٹز" گذشتہ شام لبنانی بارڈر پر موجود اپنی فورسز کو الرٹ رہنے کا حکم دے چکے ہیں۔ بنی گینٹز نے اسرائیلی فوج کو محدود پیمانے کی جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ صیہونی حکام کے مطابق لبنانی مقاومتی تحریک حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اسرائیلی ٹی وی نے موساد کے سربراہ "ڈیوڈ بارنیا" کے بیان کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ حزب الله کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصرالله واضح اعلان کرچکے ہیں کہ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں ہم اسرائیل کو کاریش گیس فیلڈ سے گیس نکالنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اُن کے اس بیان کے بعد اس بات کا خدشہ ہے کہ سید حسن نصرالله اپنی بات کا پاس رکھتے ہوئے علامتی طور پر ہی کوئی حملہ نہ کر دیں۔ نیوز ذرائع کا کہنا ہے کہ ان معاملات میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور آج کے ان واقعات کے بعد لبنان اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات بند گلی میں جا پہنچے ہیں۔
صیہونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاہدے کے مسودے کے بارے میں لبنان کے تحفظات، معاہدے کی صحت کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اسے توازن سے باہر کر دیتے ہیں۔ صیہونی فوج کے ریڈیو نے تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسرائیلی نیوی پوری طرح الرٹ ہے، جبکہ دیگر صیہونی ذرائع نے غاصب آباد کاروں میں خوف و ہراس پھیلنے کی خبر دی ہے، جبکہ تل ابیب نے گذشتہ روز امریکی تجاویز پر لبنانی تحفظات کو مسترد کرنے کے بعد کاریش سے گیس نکالنے اور حزب الله کے ساتھ محدود جنگ کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ لبنان میں امریکی سفیر "ڈورتھی شیا" کی جانب سے پیش کیا جانے والا منصوبہ لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان آبی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے ہے اور خبر ہے کہ اس منصوبے کے بیشتر حصوں کو بیروت اور تل ابیب دونوں نے قبول کیا ہے۔ تاہم لبنان نے بدھ کے روز بیروت میں امریکی سفیر کو اس منصوبے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے۔ آج صبح ایک نیوز ویب سائٹ نے تین صیہونی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ معاہدے کے مسودے میں اہم تبدیلی جو لبنان چاہتا ہے، وہ اس کی سمندری حدود کو بین الاقوامی بارڈر کے طور پر تسلیم کرنے کے بارے میں ہے، جبکہ صیہونی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ لائن اسرائیل کی بنیادی سلامتی کی ضامن ہے اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس لائن کا استحکام بہت ضروری ہے۔
ان حکام کے مطابق امریکی ثالث عاموس ہوچسٹن نے سمندری سرحدوں کے تعین کے معاملے میں لبنانی رہنماؤں کو آگاہ کیا ہے کہ اسرائیل بہت سے معاملات پر رعایت دینے کے لیے تیار ہے، لیکن جہازوں کی لائن جو بین الاقوامی سرحدیں بن جائیں گی، ان پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے لبنان کے مارونی کرسچن چرچ کے بشپ "بشارہ پطرس الرعی" کے ساتھ ملاقات میں سرحدی حد بندی کے معاہدے کو اسٹریٹجک قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ جو حتمی مرحلے میں ہے، اس سے علاقائی جنگ کو روکنے میں مدد ملے گی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انتیس ستمبر کو بیروت میں امریکی سفیر "ڈورتھی شیا" نے بعبدا پیلس میں لبنانی صدر "میشل عون" سے ملاقات کی اور دریائی حدود کے حل کے لئے اسرائیل سے مذاکرات کی تجویز پیش کی۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2020ء میں صیہونی حکومت اور لبنان کے درمیان سمندری سرحدی تنازعات کے حل کے لیے امریکی ثالثی میں تکنیکی بنیادوں پر مذاکرات کا آغاز ہوگیا تھا۔
No comments:
Post a Comment