Today news

Friday, September 16, 2022

بادشاہت یا جمہوریت، برطانوی عوام کیا چاہتے ہیں؟

علی احمدی

 Friday 16-9-2022


برطانیہ کے مختلف ذرائع ابلاغ اور مراکز ہمیشہ ملکہ الزبتھ دوم اور شاہی خاندان کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں بادشاہی نظام کا تسلسل اس کی سیاسی اور اقتصادی زندگی کی بقا کا ضامن ہے۔ اسی طرح یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں حکمفرما سلطنتی نظام حکومت کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور برطانوی عوام اس سے رضامند بھی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانوی عوام، خاص طور پر جوانوں کی جانب سے بادشاہی نظام تبدیل کر کے جمہوری نظام کا نفاذ ایک تاریخی مطالبہ رہا ہے جو اس ملک کی تاریخ میں بارہا مختلف سیاسی اور سماجی گروہوں کی جانب سے اٹھایا گیا ہے۔ گذشتہ چند برس کے دوران بھی برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے ایسا ہی مطالبہ سامنے آیا ہے۔
 
برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے اعلانیہ طور پر اس مطالبے کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں سلطنتی نظام حکومت ختم کر کے جمہوری نظام کے نفاذ کیلئے عوامی سطح پر ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے۔ 17 ویں صدی کی ابتدا میں تو سلطنت کے حامیوں اور جمہوریت کے طرفداروں کے درمیان بھرپور جنگ اور ٹکراو بھی رہا ہے۔ الیور کریمول وہ پہلی سیاسی شخصیت تھی جس نے 1649ء سے 1660ء کے درمیان برطانیہ میں جمہوری حکومت کے حق میں آواز بلند کی۔ ان کی سیاسی تحریک زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور سلطنت کے حامیوں نے اسے سختی سے کچل دیا۔ البتہ کریمول کی موت برطانیہ میں جمہوری نظام کیلئے تحریک کا خاتمہ ثابت نہیں ہوئی اور یہ تحریک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔ برطانیہ کی تاریخ میں جمہوریت کیلئے جنم لینے والی تحریک مختلف نشیب و فراز سے گزری ہے۔
 
حالیہ چند سالوں میں ملک میں جمہوری نظام کا نفاذ ایک بار پھر برطانوی عوام کا اہم مطالبہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سال بھی تحریک نفاذ جمہوریت نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں یہ مطالبہ پیش کیا گیا تھا کہ ملکہ برطانیہ کی وفات کے بعد بادشاہی نظام کو جاری رکھنے یا اس کی جگہ جمہوری نظام نافذ کرنے کا فیصلہ کرنے کیلئے عوامی سطح پر ریفرنڈم منعقد کروایا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے حامیوں کیلئے یہ مطالبہ اس قدر اہم کیوں ہے؟ وہ اس بارے میں یہ جواب دیتے ہیں: "بادشاہی نظام ایسی ناگوار یادیں لئے ہوئے ہے جو ماضی میں عوام پر بادشاہوں کے ظلم و ستم پر مشتمل ہیں۔ لہذا برطانیہ کی رائے عامہ سلطنتی نظام حکومت کے شدید مخالف ہے۔" تحریک نفاذ جمہوریت کے اہم رہنما گراہم اسمتھ نے کچھ ماہ پہلے اعلان کیا تھا کہ اس بارے میں عوامی ریفرنڈ کے انعقاد کا بہترین وقت ملکہ الزبتھ دوم کو دفن کرنے کے بعد اور ولیعہد چارلس کی تاج نشینی سے پہلے ہے۔
 
برطانیہ کے جمہوریت پسند حلقے کہتے ہیں: "کسی شخص کو انتخابات منعقد کئے بغیر عمر بھر فرمانروا بنا دیے جانا درست نہیں ہے لہذا عوامی ریفرنڈم کا انعقاد برطانیہ کو بادشاہی نظام سے نجات دلانے کا مقدمہ ثابت ہو گا۔" یہ حلقے کہتے ہیں کہ یہ ریفرنڈم آئین اور سلطنتی نظام میں تبدیلی کیلئے منعقد کروایا جائے گا۔ ممکن ہے ہم جیت جائیں اور اگر کامیاب نہ بھی ہوں تو کم از کم معاشرے میں اس بارے میں شعور پیدا ہو گا۔ اس وقت سات عشروں کی حکومت پر مبنی ملکہ الزبتھ دوم کا زمانہ اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا برطانوی عوام اس حکومت سے رضامند تھے اور اس بارے میں رائے عامہ کیا کہتی ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے متعدد سروے انجام پا چکے ہیں۔ گرڈ نامی تجزیاتی ویب سائٹ پر ٹام نگارسکی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: "الزبتھ دوم عوام میں مقبول تھیں لیکن سلطنتی خاندان ایسا نہیں ہے۔"
 
اخبار گارجین نے بھی اس بارے میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "وہ (ملکہ الزبتھ دوم) ایسے وقت پیدا ہوئیں جب برطانیہ ایک عالمی سلطنت تھی اور 600 ملین انسانوں پر حکومت کرتی تھی۔ لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو برطانیہ شمالی یورپ کا ایک عام سا ملک ہے جس کا مستقبل بھی زیادہ روشن نہیں ہے۔" حتی وہ افراد جو اس قسم کی پیشگوئی کو حقیقت سے دور قرار دیتے ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ برطانیہ کا مستقبل انتہائی مبہم ہے۔ فائننشیل ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے: "ہم جھوٹ نہیں بول رہے۔ برطانیہ بہت بری صورتحال کا شکار ہے۔" گذشتہ چند برس میں انجام پانے والے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ سلطنتی خاندان کو برطانوی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کے اخلاقی اسکینڈلز اور کرپشن ہے۔
 
YouGov
نامی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے انجام پانے والے ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18 سے 24 سالہ برطانوی جوانوں کی 41 فیصد تعداد جمہوری نظام حکومت کے حق میں ہے جبکہ صرف 31 فیصد سلطنتی نظام کے حامی ہیں۔ ان سروے رپورٹس سے حاصل ہونے والا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جوانوں کی اکثریت جمہوریت کی حامی ہے جبکہ مسن افراد سلطنتی نظام کے خواہاں ہیں۔ برطانوی شاہی خاندان کے اکثر افراد اخلاقی بے راہروی اور مالی کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تجزیاتی ویب سائٹ "انسائیڈر" نے اسی سال ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان "سلطنتی زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہے" تھا۔ اس رپورٹ میں شاہی خاندان کے 21 اسکینڈلز بیان کئے گئے تھے۔ دوسری طرف سلطنتی خاندان کے اخراجات اس قدر سنگین ہیں کہ حتی سلطنتی نظام کے بعض حامی بھی اس میں اصلاحات کے خواہاں ہیں۔

No comments: