شبیر احمد شگری
Sunday 11-9-2022
حضرت رقیہ بنت علی علیہ السلام بی بی پاکدامنؒ کے دربار کی ناقص تعمیر کا کیس چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی عدالت میں زیرسماعت ہے۔ گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے وکلاء کی چار رکنی ٹیم بنا کر رہورٹ پیش کرنے کو کہا تھا جبکہ اس سماعت میں صرف درخواستگزار کے وکیل نے تفصیلی رپورٹ پیش کی جبکہ دوسرے فریق کی رپورٹ پیش نہ ہونے پر عدالت نے مزید دو دن کا وقت دیا ہے۔ یاد رہے کہ تعمیرات میں کرپشن کی درخواست پر عدالت نے تعمیرات کا کام روک دیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے 11 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی جس میں دربار بی بی پاک دامن کی تعمیر میں بیشمار نقائص اور بے جا اخراجات کیساتھ بنائے گئے موجودہ تعمیری ڈھانچے کو واضح کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 6 ستمبر کو جو دعوی کیا گیا تھا اس کے برعکس زنگ آلود سٹیل کا ڈھانچہ بنایا گیا ہے۔ بیکار نمائش اور آرائشی ڈھانچے پر غیر ضروری اخراجات کئے گئے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ تعمیرات کی مجموعی شکل کسی بھی مزار کے برعکس ہے، بلکہ یہ کسی ہوٹل کے اندرونی حصے کی طرح دکھائی دیتا ہے، جس میں کئی ڈھلوان والی محرابیں، ہوا میں لٹکتے ہوئے ستون، دیواروں میں بے شمار کبوتروں کے سوراخ ہیں اور خواتین کیلئے علیحدہ پردہ والی جگہ کا کوئی انتظام نہیں۔ مزار کی اپ گریڈیشن اور تزئین و آرائش کا بنیادی مقصد سے ہٹ کر مکمل طور پر غیر ضروری اور جگہ کو ضائع کرنیوالے گنبدوں کی تعمیر، ہوا میں معلق ستون، آرکیٹیکٹ کا لیک سٹی کے ڈیزائن سے نقل کردہ ایک گنبد، دو منزلہ پلیٹ فارمز، برآمدے جن پر سیڑھیوں یا ریمپ کے ذریعے چڑھنے کا کوئی انتظام نہیں، اور مزار کا ابھی ڈیزائن ہونا باقی ہے۔
تزئین و آرائش اور اپ گریڈیشن سے متعلق بہت سے دوسرے کام ہیں جو کہ نامکمل ہیں، تعمیر میں جگہ کے بے جا ضیاع، بیکار نمائش اور آرائشی ڈھانچے پر غیر ضروری اخراجات کئے گئے ہیں۔ اصل تاریخی مقام جہاں حضرت داتا گنج بخشؒ اپنا چلہ کرتے تھے، وہ بھی مٹا دیا گیا ہے، بلکہ اس کی جگہ 4 فٹ اونچائی پر ایک عجیب و غریب راہداری بنائی گئی ہے۔ طاق کی جگہ بھی ہٹا دی گئی ہے، جس کے سامنے حضرت داتا گنج بخشؒ اپنا چلہ کرتے تھے۔ جسے اصل جگہ سے ہٹانا تعمیر کے ذمہ داروں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس سے اس مقدس مقام اور روضہ مبارک سے منسلک تاریخ کی مزید بے حرمتی کی گئی ہے۔ یہاں سے حضرت علی علیہ السلام کے خاندان کے افراد کے ناموں والی تختیوں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر ناقص تعمیراتی کام کے بے جا اخراجات کیساتھ ساتھ زائرین کی سہولت اور خواتین کیلئے پردے کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ شیعہ مسلک کے زائرین جس علم کو ہاتھ سے پکڑ کر دعا کرتے ہیں۔ اسے بھی زائرین کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔ گنبد کا ڈیزائن بھی ناقص بنایا گیا ہے۔ اور گنبد کا مرکز اور مزار کا مرکز بھی ایک ساتھ نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق رکھنے والی معزز ہستیوں کیلئے احترام کا فقدان نظر آرہا ہے، جو وہاں مدفون ہیں۔ اس تفصیلی رپورٹ کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہیں کہ دربار کی تعمیر کے نام پر نہ صرف عوام کی دی گئی قیمتی رقم کا سرا سر ضیاع کیا گیا ہے۔
اس مقدس مزار کی بھی بے حرمتی کی گئی ہے اور دربار کے مقدس مقام کی اہمیت کے مطابق نہ تو اس مزار کو شایان شان بنانے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی زائرین کی سہولت کا خیال رکھا گیا ہے۔ منصوبے میں بے جا اور بے منصوبہ آرائش پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے یہ مکمل رپورٹ چیف جسٹس کی عدالت میں پیش کی، جبکہ دوسرے فریق نے اپنی رپورٹ پیش نہیں کی جس پر عدالت نے انھیں دو دن کا وقت دیتے ہوئے رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔ اگلی سماعت 12 ستمبر پیر کو ہوگی۔ اس معاملے میں جس طرح ہائی کورٹ نے نوٹس لیا ہے اور موجودہ تعمیرات کو روک کر انکوائری کی جارہی ہے وہ بہت خوش آئند ہے۔ اُمید ہے کہ اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے اور دربار کی تعمیر حضرت رقیہ بنت علی علیہ السلام کے شایان شان ممکن ہو سکے گی۔
No comments:
Post a Comment