Today news

Saturday, September 17, 2022

پاکستان کیلئے مغربی سرحد مشرقی سرحد سے کچھ کم خطرناک نہیں

روح اللہ حسینی 

Saturday 17-9-2022

دو دن قبل کرم کے سرحدی علاقے غوزگڑھی میں طالبان کے ساتھ پاکستانی فوجیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں لگ بھگ 3 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوگئے جبکہ متعدد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پاراچنار سے کوئی 20 کلومیٹر مغرب میں غوزگڑھی کے قریب پاک افغان سرحد پر اس وقت یہ جھڑپ پیش آئی، جب پاکستانی اہلکار سرحد پر پاک سرزمین پر پوسٹ بنارہے تھے۔ نیوز ذرائع کے مطابق طالبان نے پاکستانی اہلکاروں کو منع کیا، مگر پاکستان نے اسے اپنا حق قرار دیتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا تو طالبان نے چال چل کر دو دن انہیں کام کرنے دیا اور پاکستانیوں کو غفلت میں ڈال کر اگلے روز اچانک حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پاک فوج کے تین جوان موقع پر شہید ہوگئے۔
طالبان کے مالی یا جانی نقصانات کا کسی آزاد ذریعے سے پتہ نہیں چل سکا ہے، تاہم طالبان نے ایک نشریاتی ادارے کے توسط سے اپنے کچھ نقصانات کا اعتراف کیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ملحقہ تمام سرحدی علاقے پاکستان کے لئے غیر محفوظ ہیں، سوائے کرم کے کچھ پوائنٹس کے، خاص کر کرم وہ پوائنٹس جہاں طوری بنگش آباد ہیں۔ وہ علاقے پاکستانی فوجیوں کے لئے نہایت پرامن ہین، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان قبائل کے افغانستان میں ہم قبیلہ لوگ موجود نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بار بار باہمی قبائلی جھڑپوں کی وجہ سے طالبان کے ساتھ انکی ایک نہیں بنتی۔ چنانچہ طالبان یا افغانستان کی جانب سے کسی قسم کی جارحیت کے نتیجے میں یہ قبائل پاک فوج سے پہلے خود ہی رد عمل دکھاتے ہیں۔
طالبان کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ افغانستان میں طالبان کو برسراقتدار لانے میں پاکستان کا ایک اہم رول ہے جو کہ اندرونی اور بیرونی سطح پر کافی حد تک مورد تنقید بھی رہا ہے۔  روز اول سے پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ مشرقی سرحد پر انڈیا کے ساتھ ہر وقت تناؤ اور حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے مشرقی سرحد پر امن رہے۔ مشرق میں افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ انڈیا کی شہ پر اس نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کو دونوں اطراف سے دباؤ میں رکھے، چنانچہ پاکستان نے وہاں پر سیاسی مداخلت کرتے ہوئے وقتا فوقتا نظام کی تبدیلی کی کوششیں کی ہیں۔
1979ء میں روسی مداخلت کو لیکر امریکہ اور یورپ کے تعاون سے پہلے لاکھوں افغانیوں کو اپنے ہاں پناہ دی، اس کے بعد انہیں مسلح کرکے وہاں کی خلق اور پرچم حکومت کے خلاف لڑایا اور دس سال کی طویل جنگ کے بعد وہاں کی حکومت کو گراکر مجاہدین کی مخلوط حکومت قائم کی، جو آپس کی لڑائیوں اور خانہ جنگی کے باعث صرف چھ سال چل سکی۔ اس دوران بھی انہی مجاہدین نے پاکستان کی بجائے انڈیا اور مغربی ریاستوں کو ترجیح دی۔ تو پاکستان نے ایک نیا پتہ چلایا اور ملا برجان کی قیادت میں طالبان کے نام پر ایک لشکر تشکیل دیکر قندھار کے راستے داخل کرایا، جس نے آنا فانا پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔
 طالبان نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ظلم کا بازار گرم کیا اور اپنے سیاسی مخالف مقامی نیز غیر ملکی افراد کو تہہ تیغ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے تمام سفارتی اداب کو پس پشت ڈال کر غیر ملکی سفراء تک کو نہ چھوڑا۔ بالاخر 2001ء کو اسامہ کا بہانہ بناکر امریکہ نے حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو گرا دیا۔ طالبان مخالف حکومت تشکیل دینے کے بعد امریکہ نے خود آکر عملا افغانستان کے اندرونی امور میں مداخلت کی اور یہاں اپنے بیسیز قائم کئے۔ یہیں سے امریکہ اپنی ظالمانہ پالیسی لانچ کرتا رہا۔ بیس سال کے بعد پاکستان کے تعاون اور طالبان کی عملی جدوجہد سے امریکہ انتہائی ذلت آمیز طریقے سے یہاں سے باہر ہوگیا۔
2021ء میں طالبان کی نئی حکومت قائم ہوگئی تو پاکستان کو یہ قوی امید پیدا ہوگئی کہ اب انکی مغربی سرحد پرامن ہوگئی ہے، تاہم صرف ایک سال کے عرصے میں مشرقی سرحد سے کچھ زیادہ جھڑپیں مغربی سرحد پر رونما ہوچکی ہیں۔ تجارتی رہداریوں، Fencing  اور سرحدی چوکیوں کے معاملات پر دونوں ملکوں کے مابین درجنوں جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ خیبر، مہمند، باجوڑ، شمالی اور جنوبی وزیرستان نیز کرم میں درجنوں مرتبہ جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ صرف کرم میں ایک مہینے کے اندر سرحد پر دو مرتبہ جھڑپیں رونما ہوئی ہیں، جس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے لئے مغربی سرحد مشرقی سرحد سے کچھ کم خطرناک نہیں۔
 

No comments: