Today news

Sunday, September 11, 2022

بھارت کے دینی مدارس پر بلڈوزر کی سیاست

جاوید عباس رضوی

Sunday 11-9-2022

آج کل بھارتی ریاست آسام سرخیوں میں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم دینے والے کچھ اساتذہ کی گرفتاری کے بعد حکومت نے ایک ہفتے کے دوران تین مدارس پر بلڈوزر چلا کر انہیں منہدم کردیا ہے۔ ہر عام و خاص نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور اس حرکت پر اعتراض اور ناراضگی ظاہر کی۔ مسلم دانشور اس کو دستور کی خلاف ورزی مان رہے ہیں، اقلیتوں کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی مانگ رہے ہیں اور مسلمانوں کے تعلیمی نظام میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ بھارت کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ قانون کام کرے مگر بلڈوزر کی شکل میں نہیں، کوئی قصوروار ہو تو سزا ضرور ملے اور سخت سے سخت ملے لیکن درسگاہوں کو گرانا کسی بھی بنیاد پر جائز نہیں ہے۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا دستور آرٹیکل 31 کے تحت مسلمانوں کو اپنے مذہبی تعلیم کے لئے درسگاہیں یعنی مدارس قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور ایسا ہر مذہب کے لئے ہے۔ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں اگر حکومت دہشت گردی کے تعلق سے کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اس کے خلاف قانونی عمل لازمی ہے، سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہیئے اور عدالت سے جرم ثابت ہونے کے بعد سزا دی جانی چاہیئے۔ لیکن گرفتاری کے بعد ایک مقدمہ درج ہونے کے ساتھ کسی مدرسے کو ڈھا دینا یہ انصاف کے زمرے میں نہیں آتا۔
بھارت کے دانشوروں کا ماننا ہے کہ مدارس کا نظام غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے لئے تعلیم کا سب سے پُرامید اور آسان طریقہ ہے، جس کے لئے حکومت کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ وہ تعلیمی نظام میں کمیوں کو دور کرنے میں مدارس کے ساتھ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت کے ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ آسام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک ایسے وزیراعلٰی کی سوچ کا نتیجہ ہے جو کانگریس میں رہے تھے۔ اب خود کو سب سے بہتر اور تیز ثابت کرنے کے لئے ایسے اقدام کررہے ہیں جو صرف بی جے پی کے لئے نقصان دہ ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ جو غلط کرے اس کے خلاف کارروائی ہو، سزا ملے۔ انہوں نے کہا کہ بات اگر مدرسوں کی ہے تو میرا ماننا ہے کہ حکومت ایک کمیٹی بنائے، جس میں آسام کے مقبول لیڈر بدر الدین اجمل سمیت مختلف ناموں اور چہروں کو شامل کیا جائے، اس  قسم کے الزامات کی چھان بین ضروری ہے۔ انہوں نے کہا ’’سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے کوئی جرم کیا اور آپ نے ایک عمارت ڈھا دی۔ ابھی اس پر شک ہے،  وہ ملزم  ہے لیکن حکومت نے بلڈوزر چلا دیا۔ اب اگر کوئی مولوی گرفتار ہوا تو ایک مدرسہ کو منہدم کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔؟‘‘


پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ مدرسوں کا نصاب آج کا نہیں ہے، جبکہ یہ نصاب بنیادی طور پر انسان دوستی کا سبق دیتا ہے، اس کو قصوروار کیسے مانا جاسکتا ہے۔؟ انہوں نے کہا ’’اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ عمارت غیر قانونی طور پر بنی تھی، تو سوال یہ ہے کہ اس کو تعمیر کرنے والوں کے ساتھ اس کی تعمیر پر خاموش رہنے والے سرکاری افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ آخر حکومت ابھی تک کیا کررہی تھی اور حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو اترپردیش کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کی پالیسی سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں کیونکہ وہ اس قسم کی کارروائی میں کوئی امتیاز نہیں برتتے ہیں۔ انہوں نے غلط کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی، حالانکہ میں بلڈوزر چلانا بھی غلط ہی مانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جو اس قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں ان کے خلاف بھی سرکاری کارروائی ہونی چاہیئے۔ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ملک میں مدرسے دستوری حق کے تحت قائم ہیں، آپ ان پر کیسے پابندی لگا سکتے ہیں، اس قسم کی رکاوٹ دستور کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں تو مسلمانوں کی بڑی تنظیموں بشمول آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملہ کو عدالت میں لے جائیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اب ایک مسئلہ یوپی میں مدارس کے سروے کے نام پر شروع ہورہا ہے۔
پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ یہ ایسے مدارس ہیں جہاں شاید اساتذہ کو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتی ہیں، جدت کاری کے نام پر جن کی تقرری ہوئی ہے انہیں بھی تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے یہ پایا کہ ان مدارس میں بنیادی سہولیات نہیں ہیں تو کیا اس کمی کو دور کرے گی۔؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ رویہ درست نہیں ہے، اگر کسی کمیونٹی میں کمی ہے تو اس میں بیداری پیدا کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ مدارس غریبی کی لائن سے سب سے نیچے زندگی گزارنے والے بچوں کی تعلیم کو یقینی بناتے ہیں، انہیں کتابیں اور چھت مہیا کرتے ہیں۔ اس دوران دہلی کی تاریخی مسجد فتح پوری کے امام ڈاکٹر مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے اس صورتحال پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس میں دہشت گردی کے نام پر بلڈوزر چلانا جنگل راج کی علامت ہے، قانون کی بالادستی کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے کسی بھی کونے میں، کسی بھی حصے میں اور کسی بھی شہر میں کوئی شخص دہشتگردی کے الزام میں گرفتار ہوتا ہے تو قانونی عمل لازمی ہے، آپ ملزم کو گرفتار کریں، عدالت میں پیش کریں اس سے جرم ثابت ہو تو وہ سزا کا حقدار بنے، اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن کسی کو گرفتار کرنے کے بعد آپ ایک عمارت کو ڈھا دیں، ایک تعلیم گاہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیں تو یہ انصاف نہیں کہلائے گا۔
انہوں نے کہا یہ سب ملک کے دستور کی خلاف ورزی ہے، یہ اقلیتوں کو دستور کے تحت حاصل حقوق کی پامالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسام میں جو کچھ ہوا وہ حیرت انگیز ہے۔ وہ جمہوری نظام میں ناقابل تصور ہے۔ تین مدرسوں کو ڈھا دیا گیا، بلڈوزر چلا دئیے گئے، لاتعداد بچے اپنی تعلیم گاہ سے محروم ہوگئے۔ یہ سب ان حالات میں ہوا جب ملزم کی گرفتاری ہوئی ہے، لیکن نہ عدالت میں کیس گیا نہ وہ مجرم ثابت ہوئے، مگر اس سے پہلے مدرسوں پر بلڈوزر چلا گیا۔ انہوں نے کہا ’’ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس قسم کی کارروائی کو روکا جانا چاہیئے، یہ دستور کی کھلی خلاف ورزی ہے، دستور کی آرٹیکل 31 کے تحت اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کا حق حاصل ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان مدارس بنا رہے ہیں، اس میں تعلیم کا بندوبست کر رہے ہیں۔ اس کے لئے حکومت سے کوئی امداد نہیں لے رہے ہیں۔ کسی قسم کا کوئی بوجھ نہیں ڈال رہے ہیں۔ اس صورتحال میں تو حکومت کو شکر گزار ہونا چاہیئے کہ جو لوگ تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں ان کے لئے مدارس چھت مہیا کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہ بھی دہشتگردی کے نام پر۔ انہوں نے کہا کہ میں اس قسم کی کارروائی کی سخت مذمت کرتا ہوں اور یہ کارروائی ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جائز نہیں ہے کہ آپ کسی کو تعلیم کے حق سے محروم کریں، یہ حکومت کی پالیسی ناقابل سمجھ ہے۔
ڈاکٹر مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب اترپردیش میں نجی مدارس کا سروے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دور میں جب لال کرشن آڈوانی وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے بھی سروے کرایا تھا اور اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ دینی مدارس کے نظام میں اور نصاب میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ مولانا مفتی مکرم نے مزید کہا کہ اگر آپ مدارس کا سروے کر آرہے ہیں تو بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ تمام مذہبی اداروں کا سروے کرایا جائے۔ سب کے مذہبی نصاب کو چیک کیا جائے۔ صرف مدارس کہ سروے کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاص مقصد کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک جانب تو حکومت نے مدرسہ بورڈ قائم کیا ہے مگر اس کے تحت چل رہے مدارس میں اساتذہ کو تنخواہیں بھی نہیں مل رہی ہیں، اگر مسلمان ان کی ذاتی مدارس سے چلا رہے ہیں تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو مدارس کے نصاب پر اس کے ماحول پر کوئی شک ہے تو کچھ لوگوں کو مدارس میں تعلیم کے لئے داخل کرا دے، سب غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا کردار بالکل شفاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت سے یہی درخواست ہے کہ بلڈوزر پالیسی ختم کی جائے اور قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ مولانا مفتی مکرم نے کہا کہ ہم مسلمان 130 کروڑ ہندوستانیوں کا ہی ایک حصہ ہیں تو پھر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی کا نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ ہے۔
مولانا مفتی مکرم نے مزید کہا کہ ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ اس قسم کی کارروائی کا سلسلہ روکا جائے۔ کسی بھی قیمت پر دستوری اور جمہوری نہیں مانا جاسکتا یہ انصاف نہیں کہلا سکتا ہے۔ ممبئی کے ممتاز عالم دین مولانا ظہیر عباس رضوی نے آسام میں مدارس پر بلڈوزر چلانے جانے کو المناک واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی فرد کے ملزم بننے کے بعد کسی ادارے یا اسکول کو ڈھا دیا جانے، اس کو انسانی عقل تسلیم نہیں کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت افسوسناک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مدارس کو اس طرح ڈھانے سے کیا پیغام دیا جارہا ہے۔ یہ تو اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، دستور کی توہین ہے، قانونی کارروائی اس طرح نہیں ہوتی ہے، گرفتاری ہوتی ہے تو مقدمہ چلتا ہے، فیصلہ عدالت کرتی ہے کہ ملزم، مجرم ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی بھی جرم میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ کسی ایک شخص کے جرم کے لئے آپ کسی تعلیم گاہ کو تباہ نہیں کر سکتے، اس سے طلباء کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے اس سے لگتا ہے جیسے کہ دستور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مولانا ظہیر عباس رضوی نے کہا کہ کیا دنیا میں کہیں ایسی مثال ملتی ہیں کہ کسی اسکول ٹیچر گرفتار ہوتا ہے تو اسکول کی عمارت کو گرا دیا جاتا ہے، ایسا صرف آسام میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا قانون کہاں ہے کہ ایک استاد کی گرفتاری کے بعد مدرسے کو زمین بوس کردیا جائے۔

No comments: