Today news

Monday, September 5, 2022

بڑھتا سیاسی تناو اور دو لخت ہوتا امریکہ

سید رحیم نعمتی

Monday 5­­-9-2022

امریکہ میں کانگریس کے مڈٹرم الیکشن کا انعقاد قریب ہے اور معمول کے مطابق دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی نے اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی کیلئے الیکشن مہم تیز کر دی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے جمعرات کے روز فلاڈیلفیا شہر میں واقع آزادی ہال میں تقریر کی۔ یہ تقریر بھی اسی الیکشن مہم کا حصہ تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں غیر معمولی طور پر حریف جماعت ریپبلکن پارٹی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ صدر جو بائیڈن نے اسی طرح مدمقابل فریق کی جانب سے انجام پانے والے سیاسی حملوں کا جواب دینے کی بھی کوشش کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت امریکہ میں سیاسی کشمکش اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے۔
 
اس تقریر میں جو بائیڈن کی جانب سے حریف جماعت پر شدید سیاسی حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صدارتی مہم کے دوران اپنے کئے گئے وعدے مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ جو بائیڈن نے اپنی صدارتی الیکشن مہم میں بارہا اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ ملک میں جاری سیاسی تناو کی شدت کم کر کے امریکی معاشرے میں اتحاد اور وحدت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ خود ہی امریکی معاشرے میں پڑی دراڑ کو مزید گہرا کرنے میں مصروف ہیں۔ جو بائیڈن نے 20 جنوری 2021ء کے دن صدر کے عہدے کیلئے حلف اٹھانے کے بعد ایک تقریر کی جس میں انہوں نے کہا: "میں امریکہ کے تمام شہریوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ قوم کو متحد کرنے کی آرزو پورا کرنے میں میرا ساتھ دیں۔ آئیں ایکدوسرے کو پڑوسی کی طرح دیکھیں اور دشمن کی نظر سے نہ دیکھیں اور ایکدوسرے سے عزت اور احترام سے پیش آئیں۔"
 
لیکن گذشتہ ہفتے فلاڈیلفیا میں جو بائیڈن بہت ہی مختلف انسان دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے اس تقریر میں کہا: "ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہر وقت غصے میں رہتے ہیں اور ان کا کام انارکی پھیلانا ہے۔ وہ حقیقت کی روشنی میں نہیں بلکہ جھوٹ کے اندھیرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے حامی آئین کا احترام نہیں کرتے۔ وہ قانون کی حکمرانی پر یقین نہیں رکھتے۔" اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ جب جو بائیڈن "ٹرمپ کے حامی" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ان کی مراد امریکی معاشرے کا ایک چھوٹا سا حصہ نہیں ہے بلکہ ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کا بڑا حصہ اس میں شامل ہوتا ہے۔ یوں انہوں نے دراصل اپنی حریف سیاسی جماعت کو شدید حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
 
اگرچہ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان شدید حملوں کی وجہ الیکشن مہم اور دونوں جماعتوں میں جاری سیاسی مقابلہ بازی ہے لیکن ایک ملک کے صدر کی زبان سے ان باتوں کے اظہار کا نتیجہ امریکی معاشرے میں پڑنے والی دراڑ میں مزید شدت کی صورت میں سامنے آئے گا۔ مختلف سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دراڑ کے مزید گہرے ہونے کے عمل نے اکثر امریکی شہریوں کو شدید پریشان کر دیا ہے۔ پریشانی کا شکار امریکی شہری دونوں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے نیوز ویب سائٹ ہل نے کوینی پاک یونیورسٹی کی جانب سے انجام پانے والی سروے رپورٹ کے نتائج شائع کئے ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ 67 فیصد شرکت کرنے والے افراد کا خیال ہے کہ امریکہ میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ رقم گذشتہ برس جنوری میں ایک مشابہہ سروے رپورٹ کے نتائج سے 9 فیصد زیادہ ہے۔
 
اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں میں سے 72 فیصد اور ریپبلکن پارٹی کے حامیوں میں سے 70 فیصد افراد نے امریکہ جمہوریت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف 69 فیصد ایسے افراد نے بھی اس تشویش کا اظہار کیا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں۔ گذشتہ سروے رپورٹس کے مقابلے میں حالیہ سروے رپورٹ کا اہم نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ سروے رپورٹس میں زیادہ تر افراد کی توجہ روزمرہ زندگی کے بڑھتے اخرجات پر مرکوز تھی لیکن حالیہ سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی توجہ امریکہ کے سیاسی مستقبل پر مرکوز ہو چکی ہے اور یہ مسئلہ ان کی پہلی ترجیح بن چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں خاص طور پر ریاست فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائشگاہ پر ایف بی آئی کے ریڈ کے بعد دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی تناو انتہائی درجہ شدید ہو گیا ہے۔
 
اس سیاسی ٹکراو کا ایک فریق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو 2020ء صدارتی الیکشن میں دھاندلی کا دعوی کرتے ہیں اور اب تک اس موقف پر باقی ہیں۔ گویا وہ موجودہ صدر جو بائیڈن کو ملک کا قانونی صدر ہی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے اس موقف کا اثر اب کانگریس کے مڈٹرم الیکشن پر بھی پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ اس الیکشن میں ایوان نمائندگان کی تمام 435 سیٹوں اور سینیٹ کی 35 سیٹوں پر الیکشن ہونا ہے۔ دھاندلی کا دعوی اس قدر سنجیدگی اختیار کر چکا ہے کہ حتی سینیٹر میک کینل نے بھی امریکہ کے انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف کیا ہے جبکہ وہ ریپبلکن پارٹی کے معتدل سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے کانگریس کے انتخابات قریب آئیں گے اس سیاسی تناو میں مزید شدت اور امریکی معاشرے میں پیدا ہونے والی خلیج میں مزید گہرائی آئے گی۔

No comments: