سمیع چوہدری
Thursday 8-9-2022
سیاسی اختلافات جب سیاسی اکھاڑے سے بڑھ کر کھیل کے میدان میں جھلکنے
لگتے ہیں تو پھر کھیل کھیل نہیں رہتا، تھیٹر بن جاتا ہے۔ ایسا سنسنی خیز تھیٹر جس
میں جانے کب کون اچانک سے ابھر کر آئے اور کلائمیکس پر سبھی اندازوں کو مات دے
ڈالے۔
ورلڈ کپ یا ایشیا کپ میں جب بھی پاکستان اور افغانستان آمنے سامنے
ہوتے ہیں، ڈرامہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ اپنی طرح کی ایک عجیب ننھی مُنی سی رقابت دونوں
ملکوں کی دو طرفہ کرکٹنگ تاریخ کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کر رہی ہے مگر ابھی تک
اسے کوئی کامیابی ہو نہیں پائی۔
حالانکہ افغان کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کلیدی کردار
پاکستان کا تھا۔ افغان کرکٹ کے سپر سٹارز کی تیاری میں پاکستانی کوچز اور کرکٹ
کلبز کی بھی محنت شامل رہی ہے مگر پھر اچانک حکومتی پالیسی میں بدلاؤ آیا اور
افغان کرکٹ نے اپنا قبلہ پاکستان کی بجائے انڈیا کو ٹھہرا دیا۔
پھر ان دونوں ملکوں کی ایک تلخ سفارتی تاریخ بھی ہے جو اب افغان کرکٹ
کے سر اٹھاتے ہی کھیل کے میدان پر بھی جھلکنا شروع ہو گئی ہے۔ یہ تو ہر کس و ناکس
پر عیاں ہے کہ کرکٹنگ قد کاٹھ میں افغانستان کا پاکستان سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔
لیکن پھر بھی گذشتہ چند سال سے، میچز کے اختتامی لمحات میں جذبات
آسمان کو چھونے لگتے ہیں اور بات کھیل تک ہی محدود نہیں رہتی۔ زبانیں تلخ ہو جاتی
ہیں اور محاذ آرائی کے خدشات بڑھ چلتے ہیں مگر نتیجہ ایک بار پھر وہی نکلا جو ہر
بار نکلتا ہے۔
اصغر افغان اسی دکھ میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ کرکٹ سے ہی رخصت ہو
گئے کہ وہ پاکستان کو ہرا نہ پائے تھے۔ گلبدین نائب نے بھی وہی علم تھامے رکھا اور
اعلان کر ڈالا کہ، ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ مگر، شومئی قسمت کہ
وہ بھی ’صنم‘ کو لے ڈوب نہ سکے۔
محمد نبی نے بھی اپنے پیشروؤں کی طرح یہ جھنڈا اسی جذبے سے تھاما اور
اسی سوچ کے ساتھ میدان میں اترے کہ وہ یہ دیرینہ قومی خواب شرمندۂ تعبیر کر کے
چھوڑیں گے۔ مگر اصغر افغان اور گلبدین نائب کی طرح ان کی دشواری بھی سہل نہ ہو
پائی۔
میچ سے پہلے پچ رپورٹ کے دوران وسیم اکرم نے پیشگوئی کی تھی کہ یہاں 140
جیسا مجموعہ مسابقتی ہو گا اور دوسری بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے لیے یہ ہدف عبور کرنا
بہت مشکل ہو گا۔ مگر جس رفتار سے افغانستان نے اننگز کا آغاز کیا، یہ متوقع
مسابقتی مجموعے سے کہیں آگے جانے کی سوچ میں نظر آئی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی موجودہ ٹیم کو ٹی ٹونٹی میں ہرانے
کے لیے اگر افغانستان نے اب تک اپنی کوئی بہترین ٹیم پیش کی ہے تو وہ محمد نبی کی
یہ ٹیم ہے جہاں گیارہ کے گیارہ کھلاڑی اپنی کارکردگی سے ثابت کرتے نظر آتے ہیں کہ
وہ اس سطح کی مسابقتی کرکٹ کھیلنے کا حق رکھتے ہیں۔
مجیب، نبی اور راشد خان تو بہت پہلے ہی اپنا سکہ جما چکے، اب تو نجیب
زدران، گُرباز اور زازئی بھی دنیا بھر کی ٹی ٹونٹی لیگز میں نام کما چکے ہیں۔ پھر
فرید اور فاروقی جیسے اُبھرتے ہوئے فاسٹ بولرز تو افغان کرکٹ کی قوت کو سہ آتشہ کر
دیتے ہیں۔
اس سطح کی ٹیم کو جب مقابلے پر ایک ایسی پاکستانی ٹیم ملے جس کی بیٹنگ
کا لگ بھگ نصف بوجھ اٹھانے والے کپتان کی فارم روٹھی ہوئی ہو، مڈل آرڈر تجربے سے
خالی ہو اور بولنگ اٹیک کا لیڈر بھی ٹیم سے باہر ہو، تو اس کی امیدیں قوی تر ہو
جاتی ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ ڈیتھ اوورز کی ٹی ٹونٹی بولنگ کو طرح دینے والے
عمر گل جب افغان ڈریسنگ روم میں بیٹھے بابر، فخر اور رضوان کے خلاف سٹریٹیجی بنا
رہے ہوں تو یہ یقین سا ہو جاتا ہے کہ یہ ٹیم ضرور تاریخ پلٹ دے گی۔
محمد نبی کی ٹیم یہاں واقعی تاریخ بدل سکتی تھی اگر وہ اپنی خواہشات
اور شارجہ کی اس وکٹ کے باؤنس میں کوئی حقیقت پسندانہ مطابقت پیدا کر پاتی۔
یہ بیٹنگ لائن ایک بہترین مجموعہ تشکیل دینے کی صلاحیت سے معمور ہے
اور اگر پچ کا مزاج مدِ نظر رکھ کے کھیلا جاتا تو یہاں پہلی اننگز میں 150 کے لگ
بھگ مجموعہ بآسانی ترتیب دیا جا سکتا تھا۔
مگر جہاں ایسے بولنگ اٹیک کے ساتھ 140 رنز بھی دفاع کرنے کو کافی رہتے، وہاں افغانستان نے 180 رنز بنانے کی کوشش کی۔ اگر یہاں بنگلہ دیش کے جیسا بولنگ اٹیک مدِمقابل ہوتا تو شاید یہ کوشش کامیاب بھی ہو جاتی لیکن پاکستانی بولنگ ابھی تک اس ایشیا کپ کا بہترین اٹیک ثابت ہوئی ہے اور اس کے خلاف ایسی پچ پر 180 جیسا خلائی قلعہ بنانا خواب خیال کی سی بات تھی۔
نتیجتاً افغان بیٹنگ 140 سے بھی چار قدم پیچھے ہمت ہار بیٹھی۔
یہاں باؤنس کم تھا اور یہ پچ رک کر کھیلنے والوں کے لیے ثمر آور تھی۔
مگر افغان بلے بازوں نے وکٹ پر رکنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ وہ جیت کی دھن میں مست
بلے گھماتے چلے گئے اور پاکستان کو ہرانے کا ایک نادر موقع گنوا بیٹھے۔
مجیب نے پاور پلے میں رضوان کے راستے روکے رکھے۔ فاروقی ہمیشہ کی طرح
نئے گیند سے بہت خطرناک ثابت ہوئے اور شروع میں ہی پاکستانی بلے بازوں کو دباؤ میں
لے آئے۔ راشد خان ہمیشہ کی طرح چکراتے رہے اور فرید نے تو ڈیتھ اوورز میں میچ کو
ایک نئی زندگی ہی دے ڈالی۔
مگر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ جب منزل عین سامنے تھی، اچانک کہیں سے امڈ
کر نسیم شاہ آئے۔ انھیں آج سے پہلے محض ایک باصلاحیت نوجوان فاسٹ بولر ہی سمجھا
جاتا تھا، مگر یہاں انھوں نے پاکستان کے لیے وہ کر ڈالا جو عموماً آصف علی کیا
کرتے ہیں، مگر یہاں نہ کر پائے تھے۔
آصف علی کی وکٹ کے بعد پاکستان کے لیے اس میچ میں زیادہ امیدیں باقی
نہ رہی تھیں۔ مگر جب پاکستانی شائقین کے جذبات سرد پڑنے کو تھے اور ڈریسنگ روم میں
سر جھکنے کو تھے، نجانے کیسے معجزاتی طور پر نسیم شاہ نے وقت کو پگھلا دیا اور
پاکستان نے ایک بار پھر اصغر افغان کا خواب توڑ دیا۔
2 comments:
👍
Wow
Post a Comment