مظہر برلاس
میرے دوست بیورو کریٹ نے پانی کا گلاس پیا، گلاس ختم ہوتے ہی اس نے
آہ بھری اور پھر کہنے لگا ،’’پچھلے تیس برسوں میں افسرِ شاہی کے کام کرنے کا
انداز وہ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ خاص طور پر پنجاب میں تو ستیاناس ہی
ہوگیا وہاں تو افسران کو ایک خاندان کی آنکھ کا تارا بن کے رہنا پڑا۔ جو افسر اس
خاندان کو پسند نہ آیا اسے راندۂ درگاہ بنا دیا گیا۔ آپ کو یاد ہے کہ نواز شریف
1985ء میں پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے اور پھر 1988ء میں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ ان
دونوں ادوار میں نواز شریف نے اپنے ہر ایم پی اے کو دو دو اے ایس آئی اور دو دو
نائب تحصیلدار کی پوسٹیں تحفے میں دیں۔ ارکانِ صوبائی اسمبلی نے اپنے چہیتوں کو بھرتی
کروا دیا۔ یہی چہیتے ترقی کرتے کرتے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر بن گئے،
جو پولیس میں تھے وہ ڈی پی او بن گئے، کچھ تو ڈی آئی جی تک پہنچ گئے۔ اب جب اس
طرح پروموشن پانے والے اور جانبدار افسران انتظامی ڈھانچے کا حصہ بن گئے تو پھر کس
طرح انتظامی ڈھانچہ بربادی سےبچ سکتا تھا۔ پنجاب میں ایسا ہی کھیل کھیلا گیا، ایک
سیاسی جماعت نے اپنے وفاداروں کو نوازا اور پھر ان وفاداروں نے جواباً ظلم کی حد
تک محبت نبھائی۔اس سے ملتا جلتا کھیل سندھ میں کھیلا گیا۔ وہاں کوٹہ سسٹم
نےبربادیوں اور اندھیروں میں اضافہ کیا ۔ دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والے زمینداروں
کے بچے تعلیم کراچی کے اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کرتے مگر مقابلے کے امتحان کے
وقت وہ دیہی سندھ کا ڈومیسائل لے آتے۔ اس طرح حقداروں کو حق سے محروم رکھا گیا۔
یوں پنجاب میں ’پروموٹی‘ چہیتوں اور سندھ میں ’کوٹی‘ چہیتوں کے ذریعے نظام چلانے
کی کوشش کی گئی، جس سے پورا انتظامی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا۔ سب سے بڑا ظلم برس
ہا برس سے جاری ہے اور وہ ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں مقابلے کے امتحانات میں قومی
زبان کوبالکل نظر انداز کردیا گیا۔ عام سرکاری اسکولوں سے پڑھنے والے لائق فائق
بچے انگریزی میڈیم اسکولوں کے تعلیم یافتہ طالب علموں کےادنیٰ معیار پر بھی پورا
نہیں اترتے، ان کے ذہین و فطین ہونے میں تو شک نہیں مگر محض زبان ان کے راستے میں
حائل ہو جاتی ہے۔ کئی برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے ذہین ترین
بچے میٹرک اور ایف اے میں انگریزی میں فیل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ملک کے مختلف کونوں
سےٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے اور اس کے ضائع ہونے کی واحد وجہ انگریزی زبان ہے۔ مقابلے
کے امتحانات میں پاس ہونے والوں کی اکثریت ان بچوں کی ہے جو شروع سے انگریزی
اسکولوں میں پڑھتے رہے، انہوں نے تعلیم ہی انگریزی میڈیم میں حاصل کی۔ ملک کے اندر
یا باہر انگریزی پڑھنے والے مقابلے کا امتحان پاس کرکے انتظامی ڈھانچے کا حصہ بن
جاتے ہیں مگر یہاں سے ناکامی کا ایک اور سلسلہ شروع ہو تا ہے۔ انگریزی اسکولوں میں
پڑھنے والے بچوں کو پاکستان کے عام مسائل سے شناسائی نہیں ہوتی، اس لئے وہ ناکام
ہو جاتے ہیں، ان افسروں کو عام آدمی اور عام بستیوں سے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں
ہوتا، اسلئے یہ افسر کچھ درست نہیں کر پاتے...‘‘میں نے اپنے دوست افسر کی باتیں
غور سے سنیں اور پھر کہا کہ جناب والا ! آپ کی باتیں درست ہیں، آپ خود اس نظام
کا حصہ رہے ہیں، آپ کو دورانِ ملازمت ان باتوں کا خیال کیوں نہ آیا، آپ لوگوں
کو آخر ریٹائرمنٹ کے بعد ہی سچ بولنا کیوں یاد آتا ہے؟ اب اس بگڑے ہوئے، گرتے
ہوئے انتظامی ڈھانچے کو بچانے کا کوئی حل بھی ہے؟ ریٹائرڈ افسر نے میری کڑوی باتوں
کو نگلا اور پھر گویا ہوا ...’’دوران ملازمت تو ہمیں پروٹوکول کا نشہ ہوتا ہے، عام
ملازمین ہمارے سامنے کانپتے ہیں، عوامی نمائندے بھی ہمیں جی سر کہہ کر بات کرتے
ہیں، سیکریٹریوں کے پاس وزیروں سے بہتر گاڑیاں ہوتی ہیں، اس طاقت کے نشے میں ہمیں
کچھ یاد ہی نہیں رہتا مگر یاد رکھنا کہ بیوروکریٹ ریٹائر ہوتے ہی معاشرتی طورپر مر
جاتا ہے، پھر اسے جی سر کہنے والے کہیں اور چلے جاتے ہیں، دوران ملازمت لوگ ہمیں
ملنے کوترستے ہیں اور ملازمت کے بعد ہم ترستے ہیں کہ کوئی ملنے آ جائے اور پھر
لوگ وعدہ کرکے بھی ملنے نہیں آتے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب سچ ہمارے سامنے ہوتا
ہے، اسی لمحے ہمیں خوفِ خدا بھی ہوتا ہے، اس لئے ہم ریٹائر ہو کر حق اور سچ کی
جانب راغب ہو جاتے ہیں۔ آپ نے حل پوچھا ہے اس کا سادہ سا حل ہے۔ صوبائی اور قومی
سطح پر مقابلے کے امتحانات علاقائی اور قومی زبان میں لئے جائیں۔ ہمیں صرف وزارت
خارجہ کیلئے انگریزی کی ضرورت ہے ویسے تو وہاں بھی ترجمانوں سے کام چلایا جا سکتا
ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کے بہت سے ممالک نے انگریزی کے بغیر ترقی کی ہے اور
ہم غلامی کےاس منحوس سفر سے نکل ہی نہیں پا رہے، ہمیں ترقی کیلئے غلامی سے نکلنا
ہوگا۔ دنیا میں ترقی کرنے والوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑا اور اپنی زبانوں کے
ذریعے ترقی کی...‘‘ میرے دوست کی بات ختم ہوئی تو میں دیر تک یہ سوچتا رہا کہ چین،
جاپان، جرمنی اور فرانس نے انگریزی کے بغیر ترقی کی، روس اور ہالینڈ سمیت ایرانیوں
نےبھی خود کو انگریزی سے دور رکھا۔ پاکستان میں انگریزی زبان کو ذہانت کی علامت
سمجھا جاتا ہے مگر انگلستان کے پاگل خانوں میں بھی لوگ انگریزی بولتے ہیں، ذہانت
اور زبان میں فرق ہے مگر غلام یہ فرق سمجھنے سےقاصر ہیں کہ بقول اقبالؒ ؎
دل توڑ گئی ان کا دوصدیوں کی غلامی

No comments:
Post a Comment