Today news

Tuesday, September 20, 2022

فلڈ ریلیف میں کس کا کیا کردار رہا؟

اسد الله غالب

سیاسیات- قیامت خیز طوفانی سیلاب ابھی تک پھنکار رہا ہے ۔پورا بلوچستان تو خانماں برباد ہوچکا،سندھ اور جنوبی پنجاب کا ایک بڑاحصہ بھی سیلاب کی زد میں ہے۔ خیبرپختونخواہ میں سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے تباہی وبربادی کا منظر پیش کررہے ہیں ۔ لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے شب و روز گذارنے پر مجبور ہیں ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑی ہیں، جن کا نشانہ بچے بن رہے ہیں ۔ایک ہزار سے زائد لوگ سیلاب کی تندوخیز لہروں کی زد میں آکر شہید ہوچکے ہیں ۔ اس قیامت خیز سیلاب نے پاکستانی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔صوبائی حکومتیں اور ان کے ماتحت سرکاری محکمے یہ عذر پیش نہیں کرسکتے کہ انہیں سیلاب کے خطرے کے بارے میں قبل از وقت پتہ نہیں چل سکا ۔ محکمہ موسمیات ریکارڈ پر ہے کہ اس نے مئی جون سے ہی موسلا دھار اور غیرمعمولی بارشوں کی پیشین گوئی کردی تھی۔ افسوسناک کی بات یہ ہے کہ اس وارننگ پر کسی محکمے نے کان نہیں دھرے۔ 

کراچی میں تو ہر بارش کے بعد جل تھل ہوجاتا ہے ۔ ندی نالے ابل پڑتے ہیں ۔ پررونق شاہراہوں پر پانی ٹھاٹھیں مارتا ہے ۔ بڑی بڑی پوش آبادیاں بھی طوفانی بارشوں سے محفوظ نہیں رہتے۔ گھروں میں کھڑی گاڑیاں تیرنے لگتی ہیں ۔ تہہ خانوں میں پانی بھر جاتا ہے ۔ گھروں کا سازوسامان پانی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ اس قدر بدقسمت کی بات ہے کہ کراچی بار بار ڈوبتا ہے ۔یہ شہرروشنیوں، رنگوںاور رونقوں سے معمور رہتا ہے ۔ مگر اس ساری چمک دمک اور سج دھج کے نیچے شہری اداروں کا نظام بوسیدہ ہوچکا ہے ۔ نام نہاد جمہوری حکومتیں بلدیاتی ادارے قائم نہیں کرتیں ۔ جو کہ نچلی سطح پر سڑکوں ، نالوں، پلوں کی تعمیر کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ اگر کہیں کوئی ادارے موجود بھی ہیں توانہیں قانون و آئین کیمطابق اختیارات منتقل نہیں کئے جاتے۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد تمام صوبائی حکومتیں روپے پیسے اور خزانے سے مالامال ہوتی ہیں، لیکن وہ اس ساری دولت کو اپنی مٹھی میں بند کئے رکھتی ہیں۔ 

سیلاب زدہ دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہیں ۔ خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں سیلابی صورتحال پر قابو پانے کی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ پارٹی بلوچستا ن میں بھی شریک اقتدار ہیں۔ اس پارٹی کے سربراہ عمران خان کوسیلاب کے مارے ہوئے لوگوں کا خیال نہیں، بلکہ وہ محض اپنی سیاست چمکانے کیلئے جلسے پہ جلسہ کھڑکارہے ہیں ۔ اصولی ، سیاسی اور منطقی طورپر جناب عمران خان کو اپنے شب و روز فلڈ ریلیف میں بسر کرنے چاہئیں تھے، انہوں نے چند دورے تو سیلاب زدہ علاقوں کے کئے ہیں، مگر انہوں نے سیلاب میں ڈوبے لوگوں کو خوش خبری سنائی کہ انکی گندم کی فصل بہت اچھی ہوگی۔گندم کی فصل آنے میں ابھی چھ ماہ پڑے ہیں ، لیکن جن لوگوں کی فصلیں دو ماہ سے سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔ انکے نقصانات کا ازالہ کون کریگا؟عمران خان نے ایک روز میں ریلیف فنڈ کیلئے پانچ ارب تو اکٹھے کرلئے ، یہ رقم اربوں روپے کا نقصان اٹھانے والے تین کروڑ سیلاب زدہ عوام کی اشک شوئی بھی نہیں کرسکتی۔ بہرحال پانچ ارب روپے جناب عمران خان کی دسترس میں ہیں، وہ انہیں کیسے خرچ کررہے ہیں ، کسی کو کچھ پتہ نہیں بہتر ہوتا کہ وہ ذاتی سیاست چمکانے کے بجائے وزیراعظم کے فلڈریلیف فنڈ میں جمع کروادیتے ۔ جہاں سے این ڈی ایم اے اور فوج کا ادارہ سیلاب زدگان کی منظم منصوبے کے تحت امداد میں شب و روز مصروف ہیں  تاہم عمران خان وزیراعظم کے طور پر ملکی سیاستدانوں اور اداروں کیساتھ نہیں چل سکے، تو اب وہ اپوزیشن رہنما کے طور پر قومی یکجہتی کا کیسے مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ عمران خان کے الگ تھلگ رہنے سے انکی پارٹی کی صوبائی حکومتیں بھی زیادہ سرگرمی کا مظاہر ہ نہیں کرسکیں۔ چودھری پرویز الہٰی لکشمی چوک لاہور کے بارشی پانی میں تو تصویریں کھنچواتے رہے ہیں، لیکن اب جبکہ ڈی جی خان، روجھان کے علاقے سیلاب کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکے ، تو انہیں زیادہ فکر اپنے شہر گجرات کی ہے جسے انہوں نے کمشنری کا درجہ دیدیا ہے اور اس کیلئے انہوں نے ارب ہا روپے کے فنڈز مختص کردیئے ہیں ۔ گجرات کے اس علاقے میں بارشوں یا سیلاب نے کوئی قیامت نہیں ڈھائی۔اسلئے کیا ہی یہ بہتر ہو کہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی گجرات کیلئے مختص اربوں کا بجٹ ڈی جی خان اور روجھان کے سیلاب زدہ عوام میں بانٹ دیں ، انکی زندگی بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئیں۔ خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ محمود خان کو بھی سوات اور ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ عوام کی خدمت کیلئے اپنے دن رات ایک کردینے چاہئیں۔ انکے پاس پیسوں کی کمی نہیں۔ بس انہیں اپنے عوام کی فکر ہونی چاہئے بلوچستان تو ایک پسماندہ اور محرومیوں کا شکار صوبہ ہے ۔ مگر خزانہ اس کا بھی بھرا ہو ا ہے ۔ اس خزانے کا منہ کھلنا چاہئے ۔ مسلح افواج کے ادارے نے فلڈریلیف میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ اسکے اعلیٰ ترین افسران بھی فلڈریلیف سرگرمیوں میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ۔ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کیا گیا ہے، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو بھی بحال کرنے میں فوج مصروف ہے اور ایک انبوہ آدم تک راشن بھی پہنچایا جارہا ہے ۔ یہاں اگر الخدمت فائونڈیشن کی این جی او کو خراج تحسین نہ پیش کیا جائے تو یہ قرین ناانصافی ہوگی۔ بلاشبہ اس تنظیم نے لوگوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ۔ جمائمہ گولڈسمتھ نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ لوگوں کو پاکستان میں فلڈ ریلیف کیلئے الخدمت فائونڈیشن کو عطیات دینے چاہئیں۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف کے بارے میں تحریک انصاف پھبتیاں تو بہت کستی ہے ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے پورے پاکستانی عوام کے خادم اعلیٰ ہونے کا حق ادا کردیا ہے اگر پاکستان کی صوبائی حکومتیں انکی کوششوں کا ساتھ دیں تو لٹے پٹے ، سیلاب زدہ لوگوں کی زندگیاں بحال کرنا چنداں مشکل کام نہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ستائش کے مستحق ہیں کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں میں جگہ جگہ پہنچے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کیلئے بنے بنائے گھروں کی تجویز پیش کی ہے، جس پر عمل کیا جانا چاہئے۔ اس گھر پر صرف پانچ لاکھ روپے کا خرچ ہوتا ہیجس پر بیرونی حکومتوں کی طرف سے ملنے والی امداد بھی خرچ ہوسکتی ہے اور پاکستان میں لاکھوں ایسے مخیر حضرات موجود ہیں جو انفرادی طور پر ایک ،ایک گھر کا خرچہ برداشت کرنے کے قابل ہیں۔ بس ، ایک جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

No comments: