Today news

Thursday, September 8, 2022

کربلا میں اجتماع اور کشمیر کا تذکرہ

نذر حافی

Thursday 8-9-2022

مظلوموں کے ساتھ ساتھ رہیے۔ یہی دین کا حکم اور انسانیت کی معراج ہے۔ اب ہم موجودہ مسلمانوں کی مدد سے تو کشمیر کو آزاد کرانے سے رہے۔ دوسری طرف ساری دنیا کو مسلمان کرنا بھی ہمارے بس میں نہیں۔ مصروفیت کے اِس عہد میں کسی کے پاس اتنا وقت بھی تو نہیں کہ وہ  گھنٹوں بیٹھ کر ہمارے بھاشن سُنے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہ حکومتی و سیاسی لیڈر ہمیں کشمیر آزاد کروا کر دیں گے تو پھر تو ہم انتہائی ناسمجھ ہیں۔ بھلا اس اشرافیہ کا کشمیر و فلسطین سے کیا تعلق۔؟ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم ساری دنیا کو مسلمان کرنے سے تو رہے، تاہم ساری دنیا کو یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں بھی انسان رہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ اپیل تو کی جا سکتی ہے کہ انسان ہونے کے ناطے ہی اہلیانِ کشمیر کے درد کو محسوس کر لیجئے۔ خصوصاً جو لوگ انسانیت کو ہی سب سے بڑا دین کہتے ہیں، انہیں بھی ہم یہ سمجھانے میں ناکام  چلے آرہے ہیں کہ اسلام اور انسانیت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

 
دینِ اسلام کسی ایک مُلک، قوم، رنگ، زبان، قبیلے، نسل یا علاقے تک محدود نہیں۔  اِس کی آفاقی تعلیمات دنیا کے ہر انسان کیلئے ہیں۔ دینِ اسلام کا اپنے پیروکاروں کو یہ حکم ہے کہ آپ دنیا میں جہاں بھی ہوں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے دوسروں کیلئے بھی وہی پسند کریں، جو آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم دنیا والوں پر ابھی تک یہ ثابت نہیں کرسکے کہ ہم دوسروں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ تو چھوڑیئے، ہمارا اپنوں کے ساتھ بھی ایسا منصفانہ رویّہ نہیں ہوتا۔ ساری دنیا تمام تر سیاسی، داخلی، خارجی اور بین الاقوامی مسائل پر ہمارے دوہرے معیار اور دو چہروں سے خائف ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ہی مسلمانوں کے باہمی تضادات کو دیکھ لیجئے۔

ہمارے یہ تضادات ہمیشہ رہیں گے۔ تاہم اگلے چند دِن مسئلہ کشمیر کیلئے بہت اہم ہیں۔ اگلے چند دنوں میں عراق کے اندر جہانِ اسلام کا ایک بہت بڑا اجتماع منعقد ہونے والا ہے۔ چہلمِ امام حسین ؑکے موقع پر لاکھوں مسلمان نجف سے کربلا تک پیادہ روی کریں گے۔ یہ عظیم الشّان ریلی، شہداء کے سیّد و سردار، امام عالی مقام حسین ابن علیؑ کی یاد میں نکالی جائے گی۔ دنیا  اس ریلی کو اربعین واک کے نام سے جانتی ہے۔ نواسہ رسولؐ نے جن عظیم انسانی اقدار کی بقاء اور احیاء کیلئے قربانی دی تھی، اُن اقدار کی تجدید کرنا ہی اس اربعین واک کا مقصد ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عظیم الشّان اجتماع میں دنیا بھر کے مظلوم اقوام  خصوصاً مظلومینِ کشمیر کے حوالے سے بھی آگاہی مہم چلائی جائے۔ اگر مظلوموں کی مدد و نصرت کیلئے آواز اٹھانا ایک دینی فریضہ ہے تو پھر سرزمینِ کربلا اس فریضے کی ادائیگی کیلئے بہترین سرزمین اور شہدائے کربلا کا چہلم بہترین موقع ہے۔ کربلا جو قربانیوں، حرّیت، جہاد اور جدّوجہد کی سرزمین ہے، اِس سرزمین سے کشمیریوں  کو بھی آزادی، حرّیت، استقلال اور استقامت کا پیغام جانا چاہیئے۔ آج ساری دنیا کے مظلوم انسان مخلصانہ رہنمائی، بابصیرت قیادت، دانشمندانہ مدیریّت اور جامع لائحہ عمل کیلئے تشنہ ہیں۔

اس حوالے سے اربعین ِ امام ؑکے موقع پر چند تجاویز پیشِ خدمت ہیں:
1
۔ چہلمِ امام حسین ؑکی مناسبت سے منعقد ہونے والی مجالس و محافل میں تحریکِ آزادی کشمیر اور تحریکِ کربلا کا نظریاتی ربط بیان کیا جائے۔
2
۔ چہلمِ امام کی مناسبت سے شہدائے کشمیر کے ایصالِ ثواب کیلئے سبیلیں لگائی جائیں اور لنگر کا انتظام کیا جائے۔
3
۔ خطباء، واعظین اور ذاکرین، سیّدالشہداء کی تحریک سے تحریکِ کشمیر کیلئے دروس کو بیان کریں اور مجالسِ عزاء میں کشمیر کی آزادی کیلئے خصوصی طور پر دعائیں کی جائیں۔
4
۔ شہدائے کربلا کو شہدائے کشمیر کیلئے بطورِ اسوہ اور نمونہ بیان کیا جائے۔
5
۔ تحریکِ آزادی کشمیر کی کامیابی کیلئے چہلمِ امام حسینؑ کے جلوسوں میں  فلسفہ قیامِ کربلا کو بطورِ نظریہ بیان کیا جائے۔
6
۔ چہلم کی مناسبت سے ایسی کانفرنسز، سیمینارز اور پروگرامز منعقد کئے جائیں، جن میں تحریکِ کربلا اور تحریکِ آزادی کشمیر کے حوالے سے مکالمے، مشاعرے اور سوچ بچار کا اہتمام ہو۔
7
۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں کشمیر اور کربلا کے تعلق کے موضوع پر سیشنز، ٹاک شوز اور مقالات نویسی کا اہتمام ہونا چاہیئے۔
8
۔ شہدائے کربلا و شہدائے کشمیر کے مختلف زاویوں کے حوالے سے کتابیں لکھی جائیں اور بُک اسٹال لگائے جائیں۔

مذکورہ بالا تجاویز اربعینِ امام ؑ کے ایّام میں مرتّب کی گئی ہیں، تاہم یہ تجاویز فقط اربعینِ امام ؑسے مخصوص نہیں ہیں۔ تجاویز مزید بھی ہوسکتی ہیں اور مناسبتیں بھی بہت ساری دیگر موجود ہیں۔ تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیّدُالشہداء کے منبر سے شہدائے کشمیر کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شہادتِ امام حسینؑ اور چہلمِ امام حسینؑ کے موقع پر کشمیر کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھانے اور اُن کی آزادی کیلئے خصوصی طور پر دعا کرنے کو  فراموش کر دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ امام عالی مقامؑ کا ذکر اور عزاداری اسلام اور مسلمانوں کیلئے شہ رگِ حیات ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ اِس شہ رگِ حیات سے پاکستان کی شہ رگِ حیات یعنی کشمیر کو متصل کریں۔

ہر باشعور انسان کیلئے یہ مقامِ تعجب ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں کربلا کے مقام پر لاکھوں فرزندانِ اسلام کا اجتماع ہو اور اُس اجتماع میں دس ملین مسلمانوں کی پچہتر سالہ غُلامی سے نجات کیلئے کو آواز بلند نہ ہو۔ ظُلم کے مقابلے میں سکوت ویسے بھی حسینیوں کو زیب نہیں دیتا اور اب مقبوضہ کشمیر میں  آرٹیکل 370 اور A-35 کے خاتمے کے بعد یہ جو نئی صبحِ انقلاب طلوع ہو رہی ہے، اِس کا واضح اور روش اُفق کربلا ہی ہے۔ بقولِ شاعرِ انقلاب
یہ صبحِ انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغِ ظلم کی تھرا رہی ہے لو
درپردہ یہ حسینؑ کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو

No comments: